کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 354
روزے کی کوئی ضرورت نہیں۔ لا الہ الا اللہ پڑھنے کا معنی یہ ہے کہ آدمی اس بات کا اقرار کرے کہ میں نماز روزے کا پابند رہوں گا۔ اگر اس نے نماز روزے کی پابندی نہیں کرنی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ کے دعوی میں جھوٹا ہے۔ لا الہ الا اللہ کا معنی ہی یہ ہے کہ جو کچھ اللہ نے کہا جو کچھ رسول اللہ نے فرمایا میں اس کی پابندی کروں گا۔ اگر رب کے قرآن کی نبی کے فرمان کی پابندی نہیں کرتا تو اس کا کلمہ بھی جھوٹا ہے۔ کلمے میں سچا نہیں ہے۔ اقرار تو یہ کر رہا ہے کہ جو اللہ رسول کہیں گے میں مانوں گا اور وقت پہ نہ رب کی بات مانتا ہے نہ رسول کی بات مانتا ہے۔ اس لئے یاد رکھو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں اس بات کا تصور ہی نہیں تھا کہ کوئی بندہ مسلمان ہو کے نماز کا تارک بھی ہو سکتا ہے۔ اس بات کا لوگ تصور بھی نہیں کرتے تھے۔ مسلمان نماز کا تارک تو بڑی بات ہے باجماعت نماز سے بھی پیچھے نہیں رہتا۔ حدیث پاک میں آیا ہے۔ شاید پچھلے خطبہ جمعہ میں یہ میں نے حدیث بیان کی تھی کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا‘ میرا جی چاہتا ہے کہ عشاء کی نماز کی جماعت کے لئے میں کسی اور کو اپنی جگہ کھڑا کروں اور خود مدینہ کی گلیوں میں چکر لگاؤں اور دیکھوں کہ جو شخص مسجد میں آکر جماعت کے اندر شامل نہیں ہوا اس کے گھر کو آگ لگا دوں کیونکہ وہ گھر مسلمانوں کا گھر نہیں۔ اتنی تشدید فرمائی اور حدیث کے اندر آیا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کہتے ہیں ہم نے منافقوں کی پہچان کے لئے ایک موٹا اصول وضع کیا ہوا تھا اور وہ کیا تھا؟ جو شخص عشاء کی نماز میں اور فجر کی جماعت میں بروقت حاضر نہ ہوتا ہم سمجھ لیتے کہ یہ مسلمان نہیں یہ منافق ہے۔ صرف پیچھے رہنے سے لوگوں کو ایسے شخص کے بارے میں نفاق کا شبہ ہو جاتا تھا اور جو نماز میں حاضر ہی نہیں ہوتا جس نے کبھی نماز ادا ہی نہیں کی اس کے بارے میں شریعت اسلامیہ کیا کہتی ہے؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ لوگو یاد رکھو قیامت کے دن بارگاہ ربانی میں سب سے پہلا جو سوال ہو گا وہ نماز کے بارے میں ہو گا۔ نماز پڑھتا رہا ہے کہ نہیں؟ اگر کسی نے نماز ہی نہیں پڑھی۔ قیامت کے دن اپنے رب کو کیا جواب دے گا؟ آج مسلمانو رمضان المبارک کے مہینے کے اندر اللہ نے ہم کو یہ توفیق بخشی کہ ہم اللہ کی