کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 353
تعلق نہیں ہے۔ ایسا آدمی جنت میں جانا تو بڑی بات جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا۔ اس لئے کہ پورے قرآن پاک میں کہیں بھی یہ بات نہیں کہی گئی کہ صرف ایمان انسان کی نجات کے لئے کافی ہے۔ بلکہ اس کے برعکس قرآن مجید میں رب نے کہا جب جہنمی جہنم میں پھینکے جائیں گے لوگ پوچھیں گے مَا سَلَکَکَمْ فِیْ سَقَرَ ؟(سورۃالمدثر:۴۲) تمہیں جہنم میں کس چیز نے پھینکوا دیا ہے؟ ذرا سینوں پہ ہاتھ رکھ کر آیت کالفظی ترجمہ سنو۔ رب العلمین جواب دیتے ہیں کہ وہ جہنمی کہیں گے اللہ نے ان کے الفاظ جو کہے جائیں گے ان کو قرآن میں درج کیا کہا پوچھا جائے گا مَا سَلَکَکَمْ فِیْ سَقَر ؟ تم جہنم میں کیوں چلے گئے ؟ تم تو کلمے کے بڑے ورد کرتے تھے۔ جواب میں کہیں گے لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ (سورۃالمدثر:۴۳) ہم جہنم میں اس لئے چلے گئے کہ ہم پختہ نمازی نہیں تھے۔ عدم صلا اقامت صلا کے فریضے کے ترک نے کلمے کے باوجود ہمیں نجات نہیں بخشی۔ ہم جہنم رسید ہو گئے ہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک دوسرے فرمان سے قرآن پاک کی اس آیت کی توثیق ہوتی ہے تفسیر اور توضیح ہوتی ہے کہ آپ نے ارشاد کیا ہے بينَ العبدِ وبينَ الكُفرِالصَّلاةِ ایمان اور کفر کی سب سے بڑی علامت جو ہے وہ نماز ہے۔ اگر بندہ نماز پڑھتا ہے تو مسلمان اور اگر نماز نہیں پڑھتا ہے تو وہ مسلمان نہیں ہے۔ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اور اس سے بھی واضح الفاظ میں فرمایا مَن ترَكَ الصَّلاةَ مُتعمِّدًا فقد كفرَ جس نے جان بوجھ کر قصدا نماز کی اہانت استخفاف اور اسے معمولی جانتے ہوئے ایک نماز بھی ترک کر دی وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا ہے۔ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایمان لے آئے کلمہ پڑھ لیا لا الہ الا اللہ کہہ دیا۔ اب نماز