کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 345
اللہ کی پکڑ … اور یہ حکمرانوں کے لئے آیتیں نازل نہیں ہوئیں۔ یہ آیتیں ہمارے لئے ہیں۔ ہر آدمی سوچے میں نے اپنے ہمسائے کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ ہماری حالت یہ ہے کوئی شریف سادہ لوح گاہک ہمارے سامنے آگیا ہمارے پاس پھنس گیا۔ ہم نے کند چھری کے ساتھ اس کو ذبح کیا۔ دھوکہ کیا فریب کیا بے ایمانی کی جھوٹی قسمیں اٹھائیں اس کو ذبح کیا۔ وہ چلا گیا اور پھر گردن تنا کے فخر سے کہنے لگے دیکھا گاہک کو کیسے ذبح کیا ہے۔ تم نے ذبح نہیں کیا تم خود ذبح ہو گئے کہ محمد عربیصلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے مَن غشَّ فلَيسَ منّا جو میری امت کے کسی آدمی کے ساتھ دھوکہ کرتا ہے وہ میری امت سے اپنے نام کو کٹوا لیتا ہے۔ تیرا نبی کی امت سے کوئی تعلق باقی نہیں۔ کیا کیا ہے؟ چار پیسے کے لئے ہمسائے کو ناجائز تنگ کیا۔ جگہ اس کی ہے۔ دھوکے سے فریب سے قوت سے طاقت سے اس پر قبضہ جما لیا۔ پھر اتراتا ہے دیکھا میں نے اس کو کیسا الو بنایا ہے۔ اس کو نہیں بنایا خود بن گئے۔ اس کو نہیں بنایا اپنی عاقبت تباہ کی ہے۔ ہمسائے کے ساتھ حسن سلوک کی بجائے اس کی گرہ کاٹنا یہ قابل فخر نہیں یہ باعث مذمت ہے سبب ملامت ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کے دل میں اللہ کا خوف‘ حقوق العباد کی نگہداشت اور اس پر محافظت کا یہ جذبہ پیدا کیا۔ دو آدمی لڑتے ہوئے آئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں میرا مکان یہاں میرے ساتھی کا مکان۔ درمیانی دیوار میری۔ اس نے کہا یا رسول اللہ جھوٹ کہتا ہے میری ہے۔ یہ میرا راستہ میری زمین کا راستہ۔ اس نے کہا نہیں جناب میری ہے۔ اس نے کہا جناب میری ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی بات سنی۔ اب فیصلہ کرنے والا کون ہے ؟ وہ جس پر جبرائیل امین آسمان سے وحی لے کے آتا ہے۔ اب جھگڑنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ جس کے حق میں نبی نے فیصلہ کر دیا اس کا حق بن جائے گا اور اس کے حق کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ حکومت کسی کے بارے میں فیصلہ دے تو اس کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ رسول کسی