کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 343
حق دیا تم جس کی جی چاہے پراپرٹی پہ قبضہ کر لو؟ اسلامی سلطنت میں بیان دیتے ہوئے حیا نہیں آتی۔ عدالتوں کے اندر سٹیٹ منٹ (بیان)دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ روش ہے کہ طاقتور جس کی چیز پر چاہے قبضہ کر لے اور تو اور نام نہاد مولوی داڑھیوں والے انہوں نے ڈاکوؤں کا روپ اختیار کر لیا ہے۔ لوگوں کے مال کو اپنی ماں کا مال سمجھ کے جس طرح چاہا اس کو بیچا جس طرح چاہا اس کو غصب کر لیا۔ کیا اسلام ہے ؟ کوئی اسلام نہیں۔ اسلام اللہ کے حقوق کے ساتھ بندوں کے حقوق کی نگہداشت کرتا ہے اور ہماری بدقسمتی کیا ہے ؟ ہم اللہ کے حقوق بھی وہی مانتے ہیں جو ہماری مرضی کے مطابق ہوں اور بندوں کے حقوق ان کو تو ہم تسلیم ہی نہیں کرتے۔ ہم کہتے ہیں بندوں کا کوئی حق ہے ہی نہیں۔ ہم تو اللہ کے بھی وہ حق مانتے ہیں جن سے ہماری اپنی خواہشات پہ چوٹ نہ آئے۔ جو مرضی کے حکم ہوں وہ مان لیتے ہیں جو نہ مرضی کے ہوں کہتے ہیں سارا اسلام کس نے پڑھا ہے۔ سارے اسلام پہ کون عمل کر سکتا ہے؟ جو مرضی کا مسئلہ ہے وہ مان لو جو نہیں مرضی کا وہ چھوڑ دو اور اسلام کی تاریخ ہم یہ بتلاتے ہیں کہ دمشق کی جامعہ مسجد ٹیڑھی بنی۔ کیوں ٹیڑھی بنی؟ اس لئے کہ ساتھ کے مکان والی بڑھیا نے اپنا مکان بیچنے سے انکار کر دیا۔ واقعے ہم یہ بیان کرتے ہیں۔ قانون یہ ہے جس کی جی چاہے زمین اکوائر کر لو۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایک آرڈیننس جاری ہو جائے فلاں زمین کو اکوائر کر لیا ہے کوئی اس پر اپیل نہ وکیل نہ دلیل اور یہ اسلام ہے؟ اور پھر ہم کہتے کیا ہیں؟ کہتے ہیں ہم اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اگر ہر آدمی یہی کہنا شروع کر دے کہ ہم اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں تو پھر قانون کی ضرورت کیا ہے؟ ایک چور چوری کرتا ہے آدمی اس کو پکڑتا ہے کہتا ہے تو پکڑنے والا کون ہے میں اللہ کے سامنے جواب دہ ہوں۔ ایک قاتل کسی کو قتل کر دیتا ہے اس کو گرفتار کیا جاتا ہے کہتا ہے تو گرفتار کرنے والا کون ہے میں اللہ کے سامنے جواب دہ ہوں۔ یہ اس دور کا نیا فلسفہ ہے کہ ہم اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اللہ کے سامنے جواب بعد میں دینا ہے پہلے دنیا میں جواب دہ ہیں۔