کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 342
حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں پہنچنے کے بعد سب سے پہلے جو کام کیا وہ مسجد کی تعمیر کا تھا۔ آپ نے فرمایا زمین ڈھونڈو۔ زمین تلاش کی گئی۔ جناب ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کے سامنے ہی ایک زمین تھی۔ پتہ چلا کہ یہ زمین بھی خالی پڑی ہے۔ آپ نے پوچھا یہ کس کی ہے؟
صحابہ نے عرض کی اللہ کے رسول یہ دو یتیم بچے سہل و سہیل ہیں ان کی ہے۔ آپ نے فرمایا ان کو بلاؤ۔
اب ذرا خیال دیکھئے انسانوں کے حقوق کی نگہداشت دیکھئے۔
آپ نے فرمایا بلاؤ۔ دونوں بچوں کو بلایا گیا۔ آپ نے فرمایا بیٹو یہ زمین بیچنا چاہتے ہو؟
نبی کے ماننے والے تھے۔ کہنے لگے آقا آپ نے زمین کیا کرنی ہے؟
آپ نے ارشاد فرمایا میں نے اس زمین پہ رب کا گھر بنانا ہے۔
یتیم بچے پکار اٹھے۔ اللہ کے رسول رب کے گھر کی تعمیر کا مسئلہ ہے ہم سے پوچھنے کی ضرورت کیا ہے؟ یہ زمین آپ کی ہے جتنی جی چاہے لے لیں۔
آپ نے کیا ارشاد فرمایا ؟ آپ نے کہا اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو یتیموں کا مال ہڑپ کرنے کے لئے نہیں بھیجا۔
انہوں نے کیا کہا؟
اللہ کے حبیب آپ اپنے لئے تو نہیں لے رہے اللہ کے گھر کے لئے لے رہے ہیں۔
فرمایا نہیں میں یتیموں کے مال کو بغیر قیمت دئیے نہیں لے سکتا۔
انہوں نے کہا آقا پھر جو جی چاہے آپ عطا فرما دیجئے۔ نبی پاک نے اپنے صحابہ کی طرف نظر ڈالی فرمایا جاؤ بازار سے پتہ کرو جو بازار میں قیمت ہو اس سے زیادہ یتیموں کو ادا کی جائے۔
آج یہ اسلام کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں۔ مونچھوں پر تاؤ دیتے ہیں اور ہائیکورٹ میں بیان دیتے ہیں ہم جس کی جی چاہے پراپرٹی لے لیں۔ ہنگامی حالات کے تحت ہم کو کوئی باز پرس کرنے والا نہیں ہے۔ وہ حکمران اور وہ حکومتیں جو لوگوں کے حقوق کی نگہداشت نہیں رکھتے اور نہیں رکھتیں قیامت کے دن ان کا شمار بھی غاصبوں ڈاکوؤں اور لٹیروں میں ہو گا۔ کس نے