کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 332
ہمسایوں کے ہمسائے ہوں گے۔ دنیا میں رہنے والے انسان ایک دوسرے کے ساتھ کسی صورت میں بھی کاروباری طور پر ملازمت کے لحاظ سے زراعت کے لحاظ سے لین دین کے لحاظ سے سفر کی وجہ سے آشنا ہوں گے یا ناآشنا۔ اللہ رب العزت نے ان تمام تعلقات اور انسانوں کے بارے میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اپنے محبوب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو ایک ضابطے اور دستور کا پابند کیا کہ تم نے دنیا میں زندگی گزارتے ہوئے ان تمام رشتوں سے کس قسم کے تعلقات رکھنے ہیں اور کس طرح ان کے حقوق کی ادائیگی کرنی ہے؟ دنیا میں بسنے والے لوگوں کے ساتھ تمہاری روش کیا ہونی چاہئے ؟ چاہے وہ تمہارے آشنا ہوں چاہے وہ تمہارے آشنا نہ ہوں۔ اس لئے کہ اسلام صرف مسجد کا مذہب نہیں ہے کہ جو شخص مسجد میں آگیا اللہ کے سامنے اپنا ماتھا ٹیک لیا رب کی بارگاہ میں قیام و قعود کر لیا اللہ کے سامنے عجز و نیازی کا نذرانہ پیش کر لیا اس کی بخشش ہو گئی۔ دنیا میں چاہے وہ جس طرح کی زندگی گزارے اس سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی۔ اس سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی ؟ اسلام ایسا مذہب نہیں ہے بلکہ اسلام وہ دین ہے جس نے اپنے ماننے والوں کو اس بات کا پابند کیا کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بھی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین اور تعلیمات کی پیروی کرنی ہے اور دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں بھی اللہ رسول کی تعلیمات کی پیروی کرنی ہے۔ اگر کوئی شخص کتنا ہی نیک عام معنوں میں کتنا ہی پارسا اور معروف لحاظ سے کتنا ہی متقی دین دار کیوں نہ ہو لیکن اگر مخلوق خدا کے ساتھ اس کے تعلقات اس طریقے پر استوار نہیں ہیں جس طریقے پر اللہ رسول نے حکم دیا ہے تو ایسا شخص کبھی بھی رب کی بارگاہ میں سرخرو نہیں ہو سکتا۔ اور اس کا تقوی اس کی دیانت اس کی پرہیز گاری اس کی امانت داری اللہ سے اس کا تعلق اور رابطہ رب سے اس کا ڈر بارگاہ خداوندی میں اس کا خشوع و خضوع یہ کبھی بھی اس کی نجات کا باعث اور سبب نہیں بن سکتا۔ اللہ رب العزت نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا دین عطا کر کے بھیجا جو دین اور دنیا کے تمام معاملات کے بارے میں انسان کی راہ نمائی کرتا اور صرف راہ نمائی