کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 33
ہمارے مقدر کا مالک ہے۔ سن لو! ہم نے روز اول سے ایک ہی بات جانی ایک ہی چیز سمجھی اور ایک ہی چیز پر ایمان رکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یُحْیٖی وَیُمِیْتُ۔۲؎(سورۃ الاعراف:۱۵۸) کائنات میں کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو کسی کی موت و حیات کی مالک ہو۔ موت و حیات کا مالک اگر ہے تو صرف رب ذوالجلال ہے۔ اس لحاظ سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لئے غنڈہ گردی کی بات کبھی بھی شریفانہ بات نہیں ہوتی ہے۔ کسی کو کسی مسئلے پر اختلاف ہو مسئلے کے اختلاف رکھنے والے کا حق ہے کہ شریفانہ طور پر اختلاف کرے۔ بیان کرنے والا بھی شریفانہ طور پر کرے لیکن یہ کسی کو حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ یہ کہے کہ اس کی مرضی کے مطابق بات کی جائے وگرنہ بات نہ کی جائے۔ سن لو! میں صرف ایک بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ بات یہ ہے کہ اہلحدیث کے نزدیک صرف وہ بات کرنا چاہئے جو رب کی رضا کے مطابق ہو صرف وہ بات کرنا چاہئے جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ہو۔ کوئی بات کہنے والا کتنا بڑا کیوں نہ ہو اگر رب کے قرآن میں نہیں ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں نہیں ہے کعبے کے رب کی قسم اسے مارشل لاء کی تائید حاصل ہو‘ ساری کائنات اسے مان لے اہلحدیث کا فرزند اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کتاب و سنت اس کی دعوت اللہ کے فضل و کرم سے ہماری دعوت ہے۔ کوئی شخص اگر ہم سے کتاب و سنت کے بارے میں مباحثہ کرنا چاہے ہم اس کے ساتھ مباحثے کے لئے تیار ہیں لیکن کسی بھی وقت میں آدمی کو شریفانہ طرز عمل نہیں چھوڑنا چاہئے۔ اسلام کے اندر نہ دھمکی دینا جائز ہے نہ کسی کو دھمکانا جائز ہے۔ ہاں مسائل پہ اختلاف ہوتا ہے ۔ ہم بھی اختلاف کرتے ہیں لوگوں کو بھی حق ہے ہم سے اختلاف کریں۔ جس کے اندر اختلاف برداشت کرنے کا مادہ موجود نہ ہو اس کو پہلے اختلاف کی بات نہ کرنا چاہئے۔ ہماری دعوت بالکل واضح اور صاف دعوت ہے اور ہم پوری کائنات کو ایک بات سنانا