کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 326
[1]اس دور میں انگریز نے جاسوس تلاش کئے جبہ پوشوں کی صورت میں جاسوس ملے۔ خائن تلاش کئے آغا خان اول کی صورت میں خائن ملے۔ لیکن جہاد کا سلسلہ ختم نہ ہوا۔ انگریز کو ایک ایسے غدار کی ضرورت ہوئی جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی چادر پہ ہاتھ ڈال کے جذبہ جہاد کو ختم کرے۔ کوئی بدبخت اس کے لئے تیار نہیں ہوا اور یہ کلنک کا ٹیکہ اور کائنات کی یہ سیاہی اگر کسی کے مقدر میں لکھی ہوئی تھی تو غلام احمد کے مقدر میں لکھی ہوئی تھی۔ یہ پندرہ روپے ماہانہ کا منشی اس نے اپنے ضمیر کو بیچا اس نے اپنے دین کو بیچا اس نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی وفاداری کو بیچا اس نے اللہ سے اپنے ایمان کو بیچا اور اس بدبخت نے فتوی دیا کہ انگریز کے خلاف جہاد
[1] سے ایک منزل بلند تھا ، دو فٹ کے قریب اونچا رہ گیا ہے ‘‘۔ ان دونوں حوالوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مجاہدین مسجد کی اس نچلی منزل کو جو زمین میں دب گئی تھی، اپنے لیے جائے پناہ اور چھپنے کے لیے محفوظ ٹھکانے کےطور پر استعمال کرتے رہے ہوں گے۔ منسی کنہیالال لکھتے کہ ’’(مسجد پر) قبضہ مسلمانان ملت وہابیہ کا جوسنی و شیعہ فرقوں کے مخالف ہیں ۔ وہابیوں نے اب بہت سا روپیہ خرچ کر کے مسجد کی مرمت کی ہے ۔ پہلے دروازے کی جگہ عالی شاہ دروازہ بنایا ہے اورحوض بھی مقطع تعمیر کیا ہے جو نکلے کے پانی سے سیر آب رہتا ہے ۔ اندرون و بیرون مرمت اس مسجدکی ہو کر مسجد کی رونق دوبالا ہو گئی ہے ‘‘ ( تاریخ لاہور ص 158)
اس تاریخی مسجد میں اکابرین اہل حدیث خطبہ جمعہ اور درس قرآن ارشاد فرماتے رہے ہیں ۔ جن میں حضرت مولنا محمد حسین بٹالوی ، حضرت مولنا سید عبد الواحد غزنوی، حضرت امام عبد الجبار غزنوی، بطل حریت حضرت مولنا سید محمد داؤد غزنوی اور ماضی قریب میں امام العصر شہید اسلام حضرت علامہ احسان الہٰی ظہیر شہید کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔ بلاشبہ یہ عظیم الشان مسجد حریت فکر کے مجاہدوں کامرکزتھی۔ غازی علم الدین شہید اسی محلہ کے رہنے والے تھے، اسی مسجد کے نمازی تھے اور مسلک اہل حدیث سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے مولنا سید محمد داؤد غزنوی کو منبر بنا کر تحفے کے طور پر دیا تاکہ مولنا اس پر کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمائیں۔ مولنا غزنوی کے بعد حضرت علامہ شہید کے دور میں بھی یہی منبر استعمال ہوتا رہا۔ مئی 1998ء میں انتظامیہ نے مسجد کی خستہ حالت کے پیش نظر اسے گرا دیا اور ازسرنو جدید انداز میں تعمیر کیا ہے ۔ چینیاوالی کی جدید تعمیر پر اگرچہ لاکھوں روپے لگائے گئے ہیں لیکن اس جدید کا اس قدیم سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ پرانی مسجد کے در و دیوار سےایک عجیب ہی مہک آتی تھی جس کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ جو’’مزہ کھجور کے پتوں کی چھت والی کچی مسجد ‘‘ کا تھا ، و ہ لوہے او رکنکریٹ کے ڈھانچے میں کہاں ہے ۔ اس طرح ساڑھے تین سوسال پرانی زندہ تاریخ کو تاریخ کا ایک باب بنا دیا ۔ کہتے ہیں کہ چینیا والی کو پرانی عمارت کو گرانے میں خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ عمارت کی مضبوطی اس بات کی شاہد تھی کہ ابھی اسے گرانے کا وقت نہیں آیا۔