کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 325
مجاہدوں نے اس مسجد کے اندر سجدے کئے ہیں۔[1]
[1] چینیا والی مسجد اندرون لاہور کوچہ چابک سواراں رنگ محل میں واقع ہے ۔ اس کے بانی کا نام سرفراز خاں المعروف افراز خان تھا جو کہ شاہ جہاں اور عالمگیر کے ادوار حکومت میں مغلیہ سلطنت کا منصب دار تھا۔ صوبہ لاہور کی فوج داری اس کے سپرد تھی۔ یہ کوئی معمولی عہدہ نہ تھا۔ اورنگ زیب نے اپنے والد شاہ جہاں کو امور سلطنت سے بے دخل کرتے ہوئے قید خانے میں ڈال دیا اور خود مغلیہ سلطنت کا مالک بن گیا۔ سرفراز خان اس کے دور حکومت میں بھی اپنے عہدے پر فائز رہا۔ ایک سال بعد کسی نے اورنگ زیب کے کان بھرے کہ سرفراز خان تو اصل میں دار اشکوہ کا وفادار ہے اور آپ کا جانی دشمن ہے ۔ اس سے پہلے کہ اس کی طرف سے کوئی کار روائی ہو، اس کا بندوبست کا کرنا مناصب ہو گا۔ بادشاہ نے سرفرازخن کی جائیدار کی ضبطی کا حکم داری کیا اور اس کو فوج داری منصب سے برطرف کر دیا۔ ابھی یہ اطلاع حاکم صوبہ کے پاس باقاعدہ طور پر نہ آئی تھی کہ سرفراز خان کواس کا پتہ چل گیا۔ اس نے فوراً اپنی تمام غیر منقولہ جائیدار وقف کر دی، اپنی حویلی کو گرنا شروع کردیا اور اعلان کر دیا کہ اس جگہ مسجد بنائی جائے گی ۔ یہ سرفراز خاں کی معاملہ فہمی اور دور اندیشی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ جانتا تھا کہ بادشاہ کا حکم پتھر پہ لکیر ہے، جائدار سے تو ہاتھ دھونے ہی پڑنے ہیں کیوں نہ مسجد بنا دی جائے۔ اورنگ زیب کو پتہ چلا کہ سرکاری حکم کے پہنچنے سے قبل ہی نواب سرفراز خاں اپنی جائیدار راہ للہ وقف کر چکا تھا اور اپنی حویلی کو گرا کر مسجد بنا رہا تھا تو بادشاہ نے اپنا حکم واپس لے لیا اور سرفراز خاں کو اس کے عہدے پر بحال رکھا۔اس کے علاوہ اس کو جائیدار کا بہترین متبادل بھی دے دیا۔ سرفراز خان نے پھر بڑے شوق سے یہ عالی شان مسجد تعمیر کی جس کو مسجد چینی والا کہا جاتا ہے ۔ یہ مسجد 1080ھ بمطابق 1668ء میں تعمیر کی گئی۔ جبکہ مسجد کے بیرونی دروازے پر یہ شعر درج تھا۔ طرف معمار خرد تاریخ سال گفت زیبا مسجد از افراز خاں دوسرے مصرع سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دروازہ 1082ھ میں تعمیر کیا کیا تھا۔ لالہ کنہیالال کے خیال کے مطابق دوسال کے عرصے میں مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی ہو گی۔ یہ مسجدہ فن تعمیر کا لاجواب شاہکار تھی۔ تاریخ لاہور اور تحققات چشتی میں اس کا نقشہ بیان ہوا ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسجد سطح زمین سے خالی بلند ی پر بنائی گئی تھی۔ اس کے ایک طرف دکانیں تھیں۔ صحن میں حوض تھا ۔ سکھوں کے دور حکومت میں دیگر مساجد کی طرح اس مسجد کو بھی بڑا نقصان پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ مسجد میں تہہ خانہ بھی تھا ۔ امتداد زمانہ کے ساتھ اب کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ منشی کنہیالال یا مولوی نور احمد چشتی میں سے کسی نے بھی مسجدمیں تہہ خانے کا ذکر نہیں کیا۔ مولوی نور احمد نے تحقیقات چشتی 1867ء میں لکھی ۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ تیس سال قبل تین دکانیں آدھی نظر آتی تھی۔ لیکن اب وہ ’’غرق فی الارض‘‘ ہو گئی ہیں ۔ یعنی یہ 1837ء کے لگ بھگ کی بات ہو گی۔ منشی کنہیالال نے 1882ءمیں تاریخ لاہور لکھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’مسجد کا شمالی دریچہ جو زمین