کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 324
جائیں۔ صادق پور کے پورے علاقے پر بلڈوزر چلا دئیے گئے۔ لاکھوں کتابیں سینکڑوں کتب خانے بیسیوں مسجدیں دفن ہو گئیں گھروں والے بے گھر ہو گئے۔ ایسے دور میں جب کہ اس ملک میں حق والے انگریز امپیریل ازم اور اس سامراج کے خلاف اعلان جنگ کر رہے اور اس کو نکالنے کے لئے اپنے خونوں کا نذرانہ پیش کر رہے تھے انگریز کو ایجنٹوں کی اور جاسوسوں کی ضرورت ہوئی۔ مجھے معاف کر دو کچھ جاسوس جبہ پوشوں سے ملے کچھ جاسوس اونچی پگڑیوں والوں سے ملے کچھ جاسوس آغا خان کے باپ کی صورت میں ملے۔ یاد رکھنا یہ سارا قصہ۔
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
۱۸۶۶ء کے اندر اس موجودہ آغا خان کا دادا آغا خان ثالث ‘اس کو انگریزوں نے اپنی گود میں لے کر پالا اور لوگوں کی امامت کا تاج دھکے سے اس کے سر پر رکھا۔ پھر دیکھا ان جاسوسوں کے باوجود جہاد میں کمی نہیں آئی۔
اور چینیانوالی مسجد کے اندر بیٹھنے والو !تمہیں اس کے خطبے تو یاد ہیں اس مسجد کی تاریخ یاد نہیں ہے۔ یہ مسجد ۱۸۵۶ء سے لے کر ۱۹۴۶ء تک مجاہدوں کے سب سے بڑے مرکز کے طور پر تاریخ میں محفوظ ہے۔ اس مسجد کے اندر مجاہدوں کا اسلحہ چھپایا جاتا اور مجاہدوں کے لئے پیسہ یہاں سے منتقل کیا جاتا تھا۔ یہ مسجد اللہ کے فضل سے اس دور میں بھی حق کے علم کے بلند کرنے والے مجاہدوں کا مرکز تھی اور اللہ ہم کو توفیق دے کہ آج بھی اس مسجد کی عظمت کو اسی طرح باقی رکھیں جس طرح ماضی میں اس کی عظمت تھی۔ ان شاء اللہ۔ جب تک ہماری زبان میں قوت گویائی باقی ہے۔ ہم اس مسجد کی تاریخ سے بے وفائی نہیں کریں گے۔ ان شاء اللہ۔ اس مسجد کی تاریخ زندہ رہے گی۔ ان شاء اللہ۔ اس مسجد میں بڑے بڑے غازیوں نے بڑے بڑے مجاہدوں نے سجدے کئے ہیں۔ بڑے بڑے شہیدوں نے اس مسجد کے اندر عبادت کی ہے۔ بڑے بڑے سرفروشوں نے انگریز کے للکارنے والوں نے اس مسجد میں راتیں گزاری ہیں۔ اسی لئے میں کہا کرتا ہوں کہ کعبہ اور مدینے کے بعد مسجد اقصی کے بعد میری اپنی کیفیت یہ ہے کہ جتنا اس مسجد کے اندر رات کی تاریکی میں عبادت کا لطف آتا ہے کسی اور جگہ نہیں آتا۔ کتنے سربکف