کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 323
چھن رہی ہے۔ بھاگا ہوا آیا کس نے دیا جلایا ہے ؟
دیکھا دیا تو کوئی نہیں جل رہا لیکن اس تنگ و تاریک کوٹھڑی میں یحیی علی اپنے رب کے قرآن کی تلاوت کر رہا ہے اور ملائکہ الرحمہ اس کوٹھڑی کا احاطہ کئے ہوئے اور ان فرشتوں کی روشنی سے پوری کوٹھڑی جگمگا رہی ہے۔ ہندو قیدی اس کوٹھڑی کی طرف دیکھتے ہیں اور کلمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ادا کر رہے ہیں۔ اس نے کہا جلدی اس کا کام تمام کر دو۔ کل اسے جلدی پھانسی پہ چڑھا دیا جائے نہیں تو کئی لوگ اس کے حامی بن جائیں گے۔ صبح پھانسی ہے رات کو انگریز جج آیا۔ دیکھوں آج کی رات کیسے گزرتی ہے؟
صبح جا رہا ہے۔ دیکھا یحیی علی اپنے رب کی بارگاہ میں کھڑا قرآن کی تلاوت کر رہا ہے اور ہونٹوں پہ مسکراہٹ پھیلی ہوئی ہے۔ نماز سے فارغ ہوئے انگریز جج نے کہا دروازہ کھولو۔ دروازہ کھولا گیا۔ کہنے لگا پتہ ہے صبح موت کا وقت ہے؟
کہا پتہ ہے۔
کہا پھر اتنے خوش کیوں ہو؟
کہا اسی لئے تو خوش ہوں صبح موت کا دن ہے۔
کہا لوگ روتے ہیں رات سو نہیں سکتے۔ تم ہنستے ہو مسکراتے ہو؟
کہا وہ روتے ہیں جن کو عرش والے کی ملاقات کا شوق نہیں ہوتا ہے اور جن کو عرش والے کی ملاقات کا شوق ہو وہ اسی طرح خوش ہوتے مسکراتے ہیں جس طرح عاشق اپنے محبوب کو ملنے کے دن خوش ہوتا ہے۔
غصہ آیا‘ کہا گستاخ ہے اس کی داڑھی مونڈھ دو۔ داڑھی مونڈھی گئی‘ یحییٰ علی کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ کرنے لگے۔انگریز جج حیران ہوا۔ کہنے لگا موت کی سزا سنی ہنستے رہے۔ داڑھی مونڈھی گئی رونے لگ گئے اتنے بزدل ہو؟
کہا داڑھی کے مونڈھے جانے پہ نہیں روتا۔
کہا کیوں روتے ہو ؟
کہا داڑھی کی خوش نصیبی پہ اپنی بدنصیبی پہ روتا ہوں کہ داڑھی کے بالو تم کتنے خوش نصیب ہو کہ اللہ کی راہ میں مجھ سے بھی پہلے قربان ہو گئے ہو۔
وہ لوگ تھے اور پھر انگریز نے حکم دیا کہ پٹنہ کے اس سارے علاقے پر ٹریکٹر چلا دئیے