کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 320
کے اندر لکھا کہ میں انگریز کا خود کاشتہ پودا ہوں۔ چاہئے تو یہ تھا جب انگریز اس ملک سے گیا اس کے درخت کو بھی کاٹ کے ساتھ بھیج دیا جاتا اور عربی کا محاورہ ہے آج صادق آیا ہے۔ کل شی یرجع الی اصلہ ہر شے اپنے اصل کی طرف پلٹتی ہے۔ ہمیں کبھی دکھ پہنچتا ہے تو ہم کہتے ہیں ہم نے تو مرنا بھی اسی ملک میں ہیجینا بھی اسی ملک میں ہے۔ گورنمنٹ ستاتی ہے کہتے ہیں جو مرضی کر لو۔ ہمارا تو جینا مرنا اسی ملک میں ہے اور کبھی بڑا دل گھبرا جاتا ہے ظلم سے تنگ آجاتا ہے تو جی میں خیال آتا ہے یا اللہ ان سے تنگ آگئے ہیں مکے مدینے لے چل۔ او مسلمان جب گھبرا جاتا ہے تو کیا دعا کرتا ہے؟ کیا کہتا ہے؟ اللہ مکے لے چل‘ مدینے لے چل۔ مکے تیرا گھر ہے مدینے تیرے رسول کا گھر ہے۔ کیوں کہ ہر شے اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے اور ان پہ تھوڑی سی افتاد آتی ہے یہ بھی اپنے اصل کی طرف لوٹتے ہیں۔ اس کے لئے کوئی دلیل کی ضرورت تو نہیں ہے۔ یہیں سے دیکھ لو کہ اصل کیا ہے؟ جن کا اصل خدا اور آمنہ کا لال مصطفیٰ ہے وہ خدا کے گھر کی طرف لوٹتے ‘رسول کے گھر کی طرف لوٹتے اور جن کا خدا انگریز ہے ان پہ افتاد آتی ہے تو اپنے خدا سے التجا کرنے بھاگ کے لنڈن جاتے ہیں۔ نبی بھی تونے بنایا تھا‘ اب نبی کی امت کو بھی تو بچا۔ کہاں گیا ہے مرزا ؟ لنڈن اور کہتے ہیں مرکز انگلستان بنا رہے ہیں۔ اچھا ہے؎ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا جاؤ‘ جلدی جاؤ۔ ملک خالی کرو‘ جان چھوٹے۔ پھر شریعت کورٹ میں کیس کس بات کا؟ مسجد نام رکھنے کا؟ شکر کرو تمہاری قسمت اچھی ہے کہ ابھی اسلام کی حکومت نہیں آئی۔ ابھی تو اسلام آباد کی حکومت ہے۔ صدر صاحب (ضیاء الحق)بڑے اچھے آدمی ہیں۔ مولوی ملتے ہیں کہتے ہیں میں تمہارے ساتھ ہوں نور جہاں ملتی ہے کہتے ہیں میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اتنا اچھا صدر تمہیں مل گیا ہے اور تمہیں کیا چاہئے؟ کہ ؎ چلتا ہوں تھوڑی دور میں ہر راہرو کے ساتھ یہ تو اتنا اچھا صدر ہے نہ ہم کو کچھ کہتا ہے نہ ان کو کچھ کہتا ہے؎