کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 32
قادر و مختار نہیں سمجھا ہے۔ یہ لاہور میں میرے لئے پہلی دفعہ ایسی بات سننے میں آئی ہے۔[1]
ہم نے اس لاہور میں اللہ کے فضل و کرم سے اٹھارہ سال بتائے ہیں۔ ان اٹھارہ سالمیں پیپلز پارٹی کی جابرانہ حکومت کو بھی دیکھا ہے اور یحیی خان کے دور کو بھی دیکھا ہے۔ ایوب خان کا دور بھی دیکھا ہے اور اب ضیاء الحق کا دور بھی دیکھ رہے ہیں۔ کم از کم ہم فقیروں کے بارے میں کبھی کسی کو یہ کہنے کی جرات نہیں ہوئی ہے کہ وہ ہماری قسمت کا مالک اور وہ
[1] ( شریعت بل کے نمایاں ترین ناقدین میں سے تھے۔ آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعے شریعت محاذ کے دلائل کا تارد پود بکھیر کے رکھ دیا۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں بڑے بڑے جلہ ہائے عام میں آپ نے شریعت بل کی مخالفت کی اور ثابت کیا کہ شریعت اور شریعت بل دو علیحدہ چیزوں کا نام ہے۔ احباب جماعت اسلامی کا یہ عمومی رویہ ہوتا ہے کہ شریعت کی جو تعبیر وہ کریں‘ وہی عین اسلام ہے باقی سب کفر۔ نفاذ شریعت کی کسی بھی تحریک کے لئے وہ قیادت کے امیدوار ہوتے ہیں۔ علامہ شہید کی شریعت بل کی مخالفت کی وجہ سے جماعت اسلامی کی قیادت کے لئے بڑی دشواریاں پیدا ہوئیں۔ جماعت اسلامی کی طرف سے مارشل لاء کی غیرمشروط حمایت کی وجہ سے رائے عامہ بھی ان کے خلاف تھی۔ جب کہ علامہ شہید مارشل لاء کے بھی سخت ترین ناقذ تھے۔ اس لئے انہیں ’’حریت فکر کا مجاہد‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ شریعت محاذ اور جماعت اسلامی نے خاصی کوشش کی کہ اہل حدیث علماء میں بھی شریعت بل کے حوالے سے اختلاف و انتشار پیدا کیا جائے۔ اس سلسلے میں انہیں جنرل ضیاء الحق کی حکومت کی بھی مکمل سرپرستی حاصل رہی۔ لیکن انہیں اس میں بھی کوئی خاص کامیابی نہ مل سکی۔ ان مختلف عوامل کی وجہ سے جماعت اسلامی کی قیادت کا لہجہ علامہ شہید کے خلاف سخت سے سخت ہوتا چلا گیا۔ حتی کہ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر قاضی حسین احمد (جو کہ ان دنوں جماعت کے سیکرٹری تھے) نے اخبارات میں یہ بیان جاری کیا کہ ہم مخالفین شریعت بل کے فون سے سڑکیں سرخ کر دیں گے۔ قدرتی بات ہے کہ جب مرکزی قیادت کے جذبات کا یہ عالم ہو گا مقامی جماعتوں کے جذبات کا کیا حال ہو گا۔ وہ بھی لامحالہ اپنی مرکزی قادت کی طرح بے حال ہو جائیں گی۔ کچھ ایسی ہی صورت حال اس علاقے میں تھی۔ یہاں کی مقامی جماعت اسلامی اوراسلامی جمعیت کی طرف سے یہ اعلان تھا کہ اگر علامہ ظہیر نے اس جلسے میں شرکت کی تو ہم ان کو یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے۔ شہید اسلام اپنے چند مخلص خادموں (جن میں یہ گناہ گار بھی شامل تھا) کی معیت میں اس جلسے میں گئے۔ آپ کی یہ ذرہ نوازی تھی کہ آپ نے ہمیں بطور خاص فون کر کے بلایا تھا۔ میرے ساتھ میرے بھائی ابوبکر قدوسی اور میرے ماموں زاد بھائی رانا محمد جاوید رفیق بھی تھے۔ بحمدللہ آپ کے رعب اور دبدبے کے سامنے شریعت بل کے کسی حامی کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ کوئی حرکت کر سکے۔