کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 314
یہ سوال بعد کا ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پہ الاٹ شدہ ملک میں مرزائیوں کو رہنے کا حق ہے کہ نہیں ہے؟ مسجد بنانے کی بات تو بعد کی ہے۔ پہلے تو یہ سوال ہے کہ ان کو رہنے کا بھی حق ہے کہ نہیں ہے؟ سیدھی بات ہے۔ اگر کوئی شخص سرور کائنات کی ختم نبوت کو نہیں مانتا تو ان کے نام پہ الاٹ ملک میں رہنے کا حق کیوں رکھتا ہے؟ یہ عقیدہ میرا نہیں ہے یہ عقیدہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے۔ جس کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا انت الصد یق انت الصد یق انت الصد یق اے ابو بکر تو ابو بکر نہیں رہا صدیق اکبر بن گیا ہے۔ رضی اللہ تعالی عنہ۔ صدیق اکبر نے یہ نہیں کہا تھا کہ اے مسیلمہ کذاب کے حامیو آرام سے رہو۔ ہم سے کوئی تعرض نہ کرو جس طرح جی چاہے زندگی بسر کرو۔ یہ کہا تھا؟ کیا فیصلہ کیا تھا؟ اور چینیانوالی مسجد کے اندر خطبہ سننے والو او جس تلک میری آواز پہنچ رہی ہے میری آواز کو سن لو۔ جاؤ !اسلام کی تاریخ کو اٹھاؤ۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے نائب ‘آپ کے پہلے خلیفہ‘ آپ کی زندگی مبارک میں آپ کے مصلیٰ امامت پہ کھڑے ہونے والے اور وہ شخص جس کے پیچھے نبی کی زندگی میں نبی کے چچا عباس نے نبی کے داماد عثمان نے نبی کے داماد علی نے نبی کے نواسے حسن و حسین نے نماز پڑھی ہے اس صدیق نے ان لوگوں کے خلاف جب علم جہاد بلند کیا جنہوں نے رب کی وحدانیت کا انکار کیا جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو نہیں مانا تو اپنے کمانڈروں کو ہدایت کی میرے ساتھیو جاؤ اللہ کے لئے اللہ کے دین کی سرفرازی کے لئے جنگ کرو۔ لیکن بوڑھے پہ تلوار نہیں اٹھانی بچے کو گزند نہیں پہنچانا خدا کو نہ ماننے والے ان کی زمینوں کو برباد نہیں کرنا ان کے درختوں کو نہیں کاٹنا ان کے کھیتوں کو نہیں جلانا ان کی عبادت گاہوں کو نہیں ڈھانا ان کو کہو یا اسلام قبول کرو اسلام قبول نہیں