کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 313
غلام احمد کے افکار[1] پہ گرفت کی تو لاہوری مرزائیوں نے میرے جواب میں لکھا کہ ہم مرزا غلام احمد کو نبی نہیں مانتے ہم اس کو مجدد اور مہدی مانتے ہیں۔ تو میں نے اس کے جواب میں کہا تھا کیا کوئی لعنتی مجدد ہو سکتا ہے؟ کیا کوئی لعنتی مہدی ہو سکتا ہے؟ مہدی ہونے کے لئے پاکباز ہونا شریف النفس ہونا مجدد ہونے کے لئے اعلی اخلاق کا مالک ہونا ضروری ہے۔ جو آدمی خود اپنے آپ کو لعنتی کہے وہ مجدد کیسے ہو سکتا ہے ؟ حیرانگی کی بات ہے۔ تو میں یہ کہنا چاہ رہا تھا جو بات میں بنیادی طور پرسمجھانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو اس امت کا سب سے اعلی اور بہترین حصہ ہیں اور ان سے افضل محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں کوئی شخص پیدا نہیں ہوا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ گروہ ہے جنہوں نے براہ راست نبی سے فیض حاصل کیا۔ صحابہ کس کو کہتے ہیں؟ نبی کے شاگردوں کو۔ نبی کے بلا واسطہ شاگردوں کا عقیدہ ہے کہ نبی اکرمؐ کے بعد نبی کا دعوی کرنے والے سے دلیل سے گفتگو نہیں ہوگی تلوار کی دھار سے گفتگو ہوگی۔ یہ نبی کے شاگردوں کا عقیدہ ہے۔ کیا دلیل بازی ہے؟ یہ امت کی بے حمیتی اور حکمرانوں کی بے غیرتی ہے کہ اس ملک کے اندر جو اسلام کے نام پہ بنا ہے مرزائی ٹولہ نہ صرف یہ کہ اپنا وجود رکھتا بلکہ ایک کذاب‘ دجال کو کائنات کے امام کے مقابلے میں رکھتا اور ان کے بارے میں نازیبا گفتگو کرتے ہوئے اس کذاب کی صداقت کے بارے میں دلائل پیش کرتا ہے۔ یہ ہماری بھی بے غیرتی اور حکومتوں کی بھی بے حمیتی کی علامت ہے۔ آج سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مرزائیوں کو مسجد بنانے کا حق ہے؟
[1] جس زمانے میں علامہ شہید ہفت روزہ الاعتصام کے مدیر تھے ۔ ان دنوں آپ نے الاعتصام میں قادیانیت کی تردید میں بڑے جاندار اداریے لکھے ۔ تمام مکاتب فکر میں انہیں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ۔ بعد میں ان اداریوں کو کتابی شکل میں ’’ مرزائیت اور اسلام ‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا ۔ اس کتاب میں قادیانی خلفاء کی اخلاقی حالت کی تصویر کشی بھی کی گئی ہے ۔ حضرت علامہ شہید نے قادیانیت کے رد میں ایک اور معرکہ آراء کتاب ’’ القادیانیہ ‘ دراسات و تحلیل ‘‘کے نام سے عربی میں بھی لکھی ۔ آپ کی یہ کتاب انگریزی میں بھی ترجمہ ہوئی ۔ اور لاکھوں کی تعداد میں خریدی گئی ۔ افریقی ممالک میں فتنہ قادیانیت کے سدباب میں اس کتاب نے بڑا اہم کردار ادا کیا ۔ عربی زبان میں اپنے موضوع پر جامع تصنیف ہے ۔ یہ کتاب ہزاروں گم راہوں کی ہدایت کا سبب بنی اور آج بھی اس کی بڑی مانگ ہے ۔