کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 310
شبہے کی بات نہیں ہے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ان کا عقیدہ پختہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں آسکتا۔ اگر یہ عقیدہ نہ ہوتا تو پھر اس بارے میں اتنی جلدی فیصلہ کن اقدام کی ضرورت نہیں تھی۔ سوچتے دلیل طلب کرتے دعوے کی تصدیق مانگتے۔ کوئی بات نہیں کی۔ کہا اپنی تلوار کو بے نیام کرو اور جاؤ اس کی گردن کو اڑا دو اور اللہ نے اس عظمت کے لئے منتخب کیا تو اس شخص کے بیٹے کو کیا جو ساری عمر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتا رہا ہے اور اللہ نے بتلایا کہ اللہ کون ہے؟ اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ (سورۃ الانعام:۹۵) اللہ وہ ہے جو مردوں سے زندوں کو پیدا کرتا ہے۔ باپ ابو جہل ساری زندگی نبی کی مخالفت کرتا رہا سرور کائنات کے خلاف لڑتا رہا‘ حضور کو دکھ پہنچاتا رہا نبی کے خلاف سازشوں میں مشغول رہا حتی کہ معرکہ بدر کے اندر نبی کو شہید کرنے کے لئے نکلا اور اللہ کی رحمت نے اس کے بیٹے کو اپنے لئے منتخب کر لیا۔ باپ نبی کی مخالفت کرتا رہا اور بیٹا نبی کی چادر پہ ہاتھ ڈالنے والے کے خلاف اپنی تلوار کو بے نیام کر کے نکلا۔ چنانچہ مسیلمہ کذاب کو جس شخص نے جہنم رسید کیا وہ اسی ابو جہل کا بیٹا حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ تھا۔ اللہ نے رسول کے اس سب سے بڑے دشمن کے بیٹے کو رسول کی رسالت کے تحفظ کے لئے منتخب کر لیا۔ اس طرح جب اسودعنسی نے نبوت کا دعوی کیا جب طلیحہ اسدی نے نبوت کا دعوی کیا جب ایک عورت سجاح نے نبوت کا دعوی کیا کوئی اس کے بارے میں سوچ و بچار کو بروئے کار نہیں لایا۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ پوچھا جائے کہ اس کی نبوت کا دعوی سچا بھی ہے کہ نہیں ؟ یہ جو کہتا ہے وہ غلط ہے کہ صحیح ہے ؟ جانے اس پر وحی آئی ہے کہ نہیں ؟ یہ بندہ کس قسم کا ہے ؟ اس کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ نہیں۔ صحابہ نے کسی بندے کو سنا کہ وہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دعویٰ نبوت کرتا ہے اپنی تلواروں کو بے نیام کر لیا۔ کہا اس کو زندہ رہنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ یہ صحابہ کا عقیدہ تھا۔ رضوان اللہ علیہم اجمعین بات کو توجہ سے سمجھنے کی کوشش کرنا۔ یہ بات جو میں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ نبی کے بعد‘ رسول اللہؐ کے بعد امام الانبیاء کے بعد‘ سید الرسلؐ کے بعد کسی نبی کا نہ آنا یہ ساری امت کا اجماعی عقیدہ ہے اور