کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 301
فیصل اور منصف مان لیا جائے تو اختلاف باقی نہیں رہ سکتا۔ یہی ہماری دعوت ہے یہی ہمارا آوازہ ہے یہی ہمارا ہوکہ ہے اور میں خلوص دل کے ساتھ اپنوں ہی کو نہیں دوسرے بھائیوں کو بھی میں ان کو بھی بیگانہ نہیں سمجھتا دعوت دیتا ہوں کہ اپنے مسلکوں کو ٹٹولو۔ دیکھو کہ کون سی بات قرآن و سنت کے مطابق ہے اسے اپنا لو۔ جو بات قرآن و سنت کے خلاف ہو اسے ترک کر دو کہ دین کے اندر تعصب کرنا جائز نہیں۔ وگرنہ یاد رکھو قیامت کے دن رسوائیوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں ہر قسم کے تعصبات اور فرقہ بندیوں سے علیحدہ ہو کر کتاب و سنت کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آخر میں کمالیہ کے نوجوان ساتھیوں کو اپنے بھائیوں اور اپنے دوستوں کو ایک بات کی نصیحت کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ یہ جو حادثہ ہوا ہے اس میں نہ دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت ہے نہ تلخ ہونے کی۔ یہ سنت اللہ ہے کہ حق والوں کو حق کی راہ میں بڑی مشکلات اٹھانی پڑتی ہیں لیکن جو لوگ حق کی راہ میں ثابت قدم رہتے ہیں اللہ کی نصرت و تائید یقینا ان کے لئے آسمان سے نازل ہو کے رہتی ہے۔ اس لئے نہ حوصلہ ہارنے کی ضرورت ہے نہ دلبرداشتہ ہونے کی۔ انشاء اللہ اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے ہماری دعوت سچی ہے اور یہ دعوت پھیل کے رہے گی۔ دنیا کی کوئی طاقت اس دعوت کو پھیلنے سے نہیں روک سکتی۔ آج میں انتہائی تھکا ہوا بیمار بولنے سے لاچار تھا۔ حقیقی بات یہ ہے کہ میں آج یہاں بالکل حاضر نہیں ہو سکتا تھا۔ ہمارے حضرت مولانا شیخ الحدیث محمد اسحاق صاحب چیمہ نے صبح مجھے جب ٹیلیفون کیا تو میں نے ان سے گزارش کی کہ مجھ میں آنے کی سکت بالکل نہیں لیکن انہوں نے فرمایا کہ کمالیہ میں پہلے بھی ایک دفعہ ایسا واقعہ ہو چکا ہے کہ آپ کا اعلان تھا نہیں آئے لوگوں کی دل شکنی ہوئی۔ چنانچہ میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی اور اپنے بھائی حافظ صاحب کی بات کو رد نہ کر سکا۔ اللہ کا شکر ہے کہ راستے میں سمندری میں ہمارے ایک بزرگ حکیم عبدالرحمن فوت ہو گئے اور شکر کی یہ بات نہیں اللہ انہیں جنت الفردوس عطا فرمائے۔ وہاں حافظ صاحب[1] تشریف لائے ہوئے تھے میں نے ان سے درخواست کی کہ آپ بھی ہمارے ساتھ چلے چلیں تاکہ لوگوں کی پیاس کا
[1] حافظ عبد القادر روپڑی