کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 299
بات کبھی نہیں کر سکتا کہ بھول جائیں۔ پہلے ایسا مسئلہ بتلایا پھر بھول گیا کہا ایسے بھی جائز ہے۔ یہ کیسی بات ہے؟ یہ کہاں کی بات ہے؟ لوگو! اصل بات یہ ہے کہ ہم نے کتاب و سنت کے مقابلے میں اپنی طرف سے خود ساختہ چند اصول تراشے اور ان اصولوں کو ہم چھوڑنے کے لئے تیار نہیں چاہے کتاب و سنت ہم سے چھوٹ جائے۔ ہمارا عقیدہ کیا ہے ؟ ہمارا عقیدہ یہ ہے سن لو نبی کے پیار کا تقاضا یہ ہے ایک بزرگ نہیں ساری کائنات کے بزرگ ایک طرف ہوں۔ مدینے والا امام ایک طرف ہو۔ محبت کا تقاضا یہ ہے ساری دنیا کے بزرگوں کو ٹھکرا دیا جائے مدینے والے کی بات پہ آنچ نہ آنے دی جائے۔ پھر دیکھو اختلاف مٹتا ہے کہ نہیں۔ کتنی جلدی مٹے گا۔ ہر بات جو مولوی بیان کرے اس کو کہو جا اس کا حوالہ یا قرآن سے نکال کے دکھا یا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے نکال کے دکھا۔ اس کو کہو اپنی طرف سے پچر نہ لگا۔ کہتے کیا ہیں؟ قرآن کہتا ہے لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ (سورۃ النمل:۶۵) جواب کیا ہے ؟ اللہ کہتا ہے زمین و آسمان میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا۔ کہتے ہیں سیدی بو علی کے متعلق مشہور ہے کہ اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مرید گرد و پیش بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت نے نگاہ اٹھائی کہنے لگے درے ۔ لوگوں نے کہا حضرت صاحب کیا ہوا؟ کہنے لگے کعبہ میں ایک کتا داخل ہونے لگا تھا میں نے اس کو روک دیا ہے۔ یہ قرآن کا جواب ہے۔ کس بات کا جواب دیتے ہو ؟ مولوی کہتا ہے او امام دین ؟ جی مولوی جی ؟ رات تمہارا باپ ننگا چل رہا تھا۔ مولوی جی اب کیا کروں ؟ جاؤ! اس کے کپڑے لا کر مجھے دے دو میں اس کو آج رات پہنا دوں گا۔ دین کے نام پر مسئلہ بتلاؤ تو صرف وہ بتلاؤ جو رب کے قرآن میں ہو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے