کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 298
تھا۔ اگر کسی کو شبہ ہو ہمارے ساتھ آئے ٹکٹ کے پیسے ہم کو دے اگر وہاں آمین ہوتی ہو ٹکٹ اس کے ذمہ نہ آمین پکارے تو ہم اس کا کرایہ بھی دینے کے لئے تیار ہیں۔ بلند آواز سے آمین کہی۔ اب دو تین مولوی صاحب بیچ میں سے بڑے پریشان ہو گئے۔ ایک تو ہمارے دوست تھے۔ ان کی ہنسی نکل گئی۔ اب میں نے دیکھا جو میرے ساتھ مولوی صاحب تھے اللہ معاف کرے اور مولوی صاحب نے نماز کے اندر ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا کہ آمین تو ہو گئی ہے۔ آگے پتہ نہیں کیا ہونے والا ہے؟ لوگ زمین کی طرف دیکھ رہے تھے مولوی صاحب آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اب امام نے سور جو پڑھی وہ بھی وہابیوں کی سورت۔ پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی۔ جمعہ کی نماز تھی۔ اب مولوی صاحب اور پریشان ہو گئے۔ یہ کہاں وہابیوں کی مسجد میں ہم کو لے کے آگئے ہیں؟ مسجد امام صاحب کی ہے۔ اب وہ دیکھ رہے ہیں۔ امام نے کہا اللہ اکبر دونوں ہاتھ اٹھائے۔ اس نے بھی اور ساری مسجد نے بھی رفع الیدین کیا۔ رکوع سے سر اٹھایا تب بھی کیا۔ اب جب سلام پھیری۔ ابھی ایک طرف ہی سلام پھیری تو چونکہ وہ میرے بائیں طرف تھے سلام دائیں طرف پھیری۔ منہ میری طرف ہوا کہنے لگا وہابیا خوش نہ ہو دونوں طرح جائز ہے۔ میں نے کہا مجھے دوسری طرف سلام تو پھیر لینے دے۔ دوسری سلام پھیری۔ کہنے لگا کیوں ہنس رہے ہو؟ میں نے کہا دونوں طرح جائز ہونے پہ ہنس رہا ہوں۔ کہنے لگا اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟ میں نے کہا یہی عادت تمہیں ڈبو گئی ہے۔ جب کوئی جواب نہیں آتا تو کہتے ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ میں نے کہا کبھی یہ پاکستان میں اپنی مسجد کے اندر کھڑے ہو کے بھی کہا ہے کہ دونوں طرح جائز ہے؟ کہنے لگا کہنے کو تو تیار ہوں لیکن لوگ بڑے بیوقوف ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کعبے کا رب گواہ ہے میں نے اسے کہا دوست دونوں طرح کی بات میرے اور تیرے جیسے گنہگار بندے کے بارے میں تو کہی جا سکتی ہے کہ کبھی ہم نے ایسا کہا پھر بھول گئے الٹ کہہ دیا لیکن وہ دونوں طرح کی بات نہیں کر سکتا جس کا رشتہ آسمان سے جڑا ہوا ہے۔ وہ دونوں طرح کی