کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 297
طرف آؤ۔ جس کا ساتھ رب کا قرآن دے۔ اگر قرآن میں ہے آمنا و صدقنا۔ میری یہ دعوت ہے کہ کمالیہ کے لوگ اہل حدیث کا ایک مسئلہ ایسا بتلائیں جو قرآن و سنت کے منافی ہو ہم اس کو ماننے کے لئے تیار ہیں یا اپنے مسئلے اٹھا کے لائیں ہم انہیں بتلاتے ہیں کہ ان کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا فرمان کیا کہتا ہے؟ ہم انہیں کہتے ہیں کہ تم مان لو یا ہم کو منوا لو اس میں گھبرانے کی بات کیا ہے؟ میں دو برس پہلے علماء کا ایک وفد لے کر عرب ملکوں کے دورے پر گیا۔ اس میں تمام طبقات کے علماء تھے۔ سب سے پہلے ہمارے سفر کا مرحلہ بغداد کے اندر تھا۔ بغداد میں ہم جمعرات کو پہنچے دوسرے دن جمعہ تھا۔ سب نے فیصلہ کیا کہ جمعہ کہاں پڑھیں؟ کہنے لگے جی امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں چنانچہ ہم وہاں گئے۔ نو علماء کا قافلہ تھا مجھے اس کی قیادت کا شرف حاصل ہوا۔ دریائے دجلہ کے کنارے امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی بہت بڑی جامع مسجد ہے۔ وہاں ہم پہنچے۔ سرکاری مہمان تھے۔ عرب کے اندر یہ رواج ہے کہ جامع مسجد کے اندر مکبر کے لئے ا یک اونچی جگہ بنائی ہوئی ہوتی ہے۔ جہاں مکبر اور چند لوگ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ امام کو دیکھ کر پیچھے سے تکبیر کہتا ہے۔ انہوں نے حکومت کے مہمان سمجھ کر ہم کو اس اونچی جگہ پر بٹھایا۔ جن لوگوں کو حج کا شرف حاصل ہوا انہوں نے کعبتہ اللہ میں بھی یہ جگہ دیکھی ہے مسجد نبوی میں بھی۔ تقریبا تمام عرب ملکوں میں یہی رواج ہے۔ اس اونچی جگہ ہمیں جگہ دی۔ ہم نو کے نو ساتھی اکٹھے کھڑے ہوئے۔ تمام طبقات کے لوگ تھے۔ بریلوی دوست بھی تھے دیو بندی بھی ایک شیعہ دوست بھی تھے اہل حدیث بھی تھے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ صاحب مولانا حافظ عبد الغفور صاحب یہ اہل حدیث کی طرف سے تھے۔ دوسروں کا نام نہیں لیتا کہ ان کا تذکرہ آنے والا ہے۔ نماز شروع ہوئی۔ اب امام صاحب کی مسجد ہے اور مسجد کے ایک گوشے میں الگ حصے میں امام صاحب کی قبر بھی ہے۔ امام نے ولا الضالین کہا۔ ساری مسجد آمین کی آواز سے گونج اٹھی اور یہ کمرے کے اندر چھپ کے بات نہیں کہہ رہا اسٹیج پہ کھڑے ہو کے ذمہ داری سے بات کر رہا ہوں۔ دنیا کا کوئی شخص اس بات کی تردید کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ کوئی اس زمانے کی بات نہیں کر رہا جس زمانے میں کوئی بغداد پہنچ ہی نہیں سکتا