کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 296
بیان کیا ہے۔ إِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ وگرنہ میں یہ کہوں گا میرے بڑوں نے یہ کہا ہے تو کہے گا میرے بڑوں نے یہ کہا ہے یہ کہے گا میرے بڑوں نے یہ کہا ہے۔ اب کون اس کا فیصلہ کرے کہ کس کا بڑا بڑا ہے؟ ہر آدمی بڑا مانتا ہی اس وقت ہے جبکہ اس کے اپنے دل میں اس کو بڑا بنانے اور بڑا ماننے کا داعیہ اور جذبہ ہوتا ہے۔ اب کون فیصلہ کرے گا؟ ہم کہتے ہیں چھوڑو سب بڑوں کی بات چھوڑو اس بڑے کی بات مانو کہ جب تک اس کا نام نہ لیا جائے تمہاری اذان مکمل نہیں ہو سکتی۔ آجاؤ !اختلاف ختم ہو جائے گا۔ ایک ایک مسئلہ لے آؤ۔ صدیق کی صداقت کا مسئلہ ہو‘ فاروق کی امامت کا مسئلہ ہو‘ عثمان کی حیا کا ‘نبی سے وفا کا مسئلہ ہو‘ عبادات کا مسئلہ ہو‘ معاملات کا مسئلہ ہو‘ حدود و تعزیرات کا مسئلہ ہو جو عرش والے نے قرآن میں کہا جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )نے اپنے فرمان میں کہا ہمیں منظور ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے فرقے کیوں باقی ہیں؟ فرقے اس لئے باقی ہیں۔ قرآن اس کی واضح آیت ہم پڑھتے ہیں پھر جا کے مولوی سے کہتے ہیں۔ مولوی جی!قرآن کی ایک آیت ہم نے مولوی سے سنی۔ یہ ہمارے مذہب کے مطابق ہے کہ نہیں؟ مولوی کہتا ہے یہ وہابیوں کی آیتیں ہیں۔ قرآن کے اندر کچھ وہابیوں کی کچھ غیر وہابیوں کی آیتیں ہیں ؟ حدیث سنتے ہیں ‘پھر جا کے مولوی سے پوچھتے ہیں‘ مولوی جی یہ حدیث ہمارے مذہب کے مطابق ہے کہ نہیں؟ یہ نہیں کہتے کہ ہمارا مذہب اس حدیث کے مطابق ہے کہ نہیں۔ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر لوگو !ہماری دعوت یہ ہے کہ آجاؤ۔ رب کے قرآن کی طرف آؤ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی