کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 294
نہیں دیا۔ ہم یہ کہتے ہیں آؤ اختلافات کے خاتمہ کا ایک ہی طریقہ ہے۔ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ اس میں کیا قباحت ہے ؟ ڈنکے کی چوٹ کہو۔ حضرت صاحب کے ایک اپنے ہی طبقے کے مولوی نے اعتراض کیا۔ جھوٹ بولتے ہو امام صاحب کے قول کے خلاف ہے۔ جواب میں کہا میں نے تو دونوں کو حق پہ کہا ہے۔ میں نے تو کسی ایک کا ساتھ نہیں دیا۔ آج لاہور کے اخبار میں چھپا ہے۔ کل یہاں آجائے گا ڈاک ایڈیشن میں۔ او کہاں ہے اہل حدیث کا بیٹا جو ڈنکے کی چوٹ کہے بڑے سے بڑا آدمی اگر قرآن کے خلاف کہتا ہے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے خلاف کہتا ہے جھوٹ کہتا ہے۔ مولوی جھوٹ بولتا ہے محمدصلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ نہیں بول سکتا۔ بات تو اتنی ہے۔ کیا اختلاف ہے ؟ آج میں اس کو مثال بنا کر کہتا ہوں اس طرح کے اختلافات سے اور دونوں باتوں کو حق کہنے سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ فتنہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کبھی اس ملک کے اندر نافذ نہیں ہو سکتا۔ پتہ ہی نہیں چلتا حق کیا ہے باطل کیا ہے؟ سب سچ ہیں تو پھر باطل اور حق کیا ہیں ؟ سن لو اگر آج تک اس ملک کے اندر اسلامی نظام کا نفاذ نہیں ہوا تو اس کا سبب یہ فرقہ بندیاں یہ گروہ بندیاں یہ اپنے بزرگوں کے نام کو اونچا رکھنے کی خواہش اور لوگو کن بزرگوں کی بات کرتے ہو ؟ آؤ ان سب بزرگوں کو اس بزرگ کے نام پہ چھوڑ دو جس کی بزرگی کا ذکر آسمان والے نے اپنے قرآن میں کیا ہے وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ (سورۃالانشراح:۴) تیرے بزرگ کا نام کہاں سے آیا ہے ؟ صدیق کے زمانے میں فاروق کے زمانے میں ذوالنورین کے زمانے میں علی حیدر کرار کے زمانے میں رضوان اللہ علیہم اجمعین اسلام اس لئے نافذ ہو گیا کہ ان کے ہاں بزرگوں کی ہر بات کو سچ کہنے کا رواج نہیں تھا۔ ڈنکے کی چوٹ کہتے تھے تم نے یہ بات کہی تمہاری یہ بات قرآن و سنت کے خلاف ہینہیں مانتے۔ اس کو ترک کرو اس کو نافذ کرو جو رب کے قرآن میں ہے محمد کے فرمان میں ہے۔ وگرنہ اگر ہر ایک کی بات سچی ہوتی تو