کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 293
والے کی طرف آجاؤ یا مدینے والے کے خدا کی طرف آجاؤ۔ اگر ہم یہ کہیں کہ اپنے بڑوں کو چھوڑ دو ہمارے بڑوں کو مان لو پھر تو ہم جھوٹے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے۔ پھر ہم فرقہ ہیں ہم کہیں چیچہ وطنی کی نہ مانو کمالیہ کی مانو۔ یہ گروہ بندی کی بات ہے فرقہ بندی کی بات ہے۔ ہم کہیں جبے والے کی نہ مانو ننگے سر والے کی مانو۔ ہم کہیں کلے والے کی نہ مانو رومال والے کی مانو۔ ہم کہیں پان اور سرمے والے کی نہ مانو ننگے سر والے کی مانو ہم یہ نہیں کہتے۔ اگر ہم یہ کہیں تو ہم بھی فرقہ ہیں۔ ہم تو کہتے ہیں آؤ سارے فرقے چھوڑ دیں یا رب کی کتاب کو مانیں یا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو مانیں۔ ہم تو فرقہ نہیں ہیں۔ ہم لوگوں کو اپنی طرف بلانا جائز نہیں سمجھتے اور اس میں کیا اختلاف کی بات ہے ؟ پھر آدمی اس گورکھ دھندے کا شکار نہیں بنے گا کہ یہ بھی صحیح ہے وہ بھی صحیح ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ حضرت حافظ صاحب نے ایسی بات چھیڑ دی ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ کوئی اور بات کر کے پہلی بات کو لوگوں کے ذہنوں سے محو نہ کیا جائے لیکن کچھ مسئلہ تھوڑا سا علمی ہے۔ آپ میری زبان تو سمجھتے ہیں ناں بھائی۔ میں بات کو سمجھانے کی کوشش کروں گا۔ ایک بزرگ کہتا ہے کہ اگر آزاد عورت سے شادی کرنے کی استطاعت نہ ہو تو غلام عورت سے شادی جائز ہے۔ اگر آزاد عورت سے شادی کی استطاعت ہو تو غلام عورت سے شادی کرنا جائز نہیں حرام ہے۔ اگر اولاد ہو گئی تو اولاد اپنی نہیں۔ دوسرا کہتا ہے وہ بھی بڑا بزرگ ہے اگر استطاعت کے باوجود شادی کر لی شادی ہو گئی نکاح جائز ہو گا۔ اولاد ہوئی اولاد حلال کی ہو گی۔ مال چھوڑ کے مر گیا مال اس کی اولاد کو ملے گا۔ ایک کہتا ہے شادی نہیں زنا ہے حرام ہے۔ دوسرا کہتا ہے حلال ہے۔ ایک کہتا ہے اولاد اپنی دوسرا کہتا ہے اولاد اپنی نہیں۔ یہ کہتا ہے وارث نہیں وہ کہتا ہے وارث ہوں گے۔ حضرت صاحب سے پوچھا کہنے لگے دونوں حق پر ہیں۔ ہم نے کہا یہ کیا ہے؟ حلال بھی حق پر ہیں حرام بھی حق پر ہیں۔ یہ کیا ہے؟ کہنے لگے دونوں بڑے بزرگ ہیں۔ ہم نے کہا دونوں بڑے بزرگ ہیں لیکن دونوں غلطی کر سکتے ہیں‘ آمنہ کا لال غلطی نہیں کر سکتا۔ عرش والے نے دونوں کی پیروی کا ہمیں حکم