کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 292
کوئی امتیاز باقی نہیں رہتا۔ پھر تو اس کی بھی ٹھیک ہے اس کی بھی ٹھیک ہے۔
آج کل دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے دوستوں کے ایک طبقے میں میں کسی کا نام لینے کا عادی نہیں ہوں عورت کی دیت کا موضوع زیر بحث ہے۔ روزانہ اخبار میں خبریں چھپتی ہیں اور لاہور کا ایک بدترین چیتھڑا جو اپنے آپ کو اسلام کا اور پاکستان کا ٹھیکیدار سمجھتا ہے وہ اخبار ہر روز اس سلسلے میں ایک نئی سرخی چھاپتا ہے اور مزے کی بات کیا ہے؟
بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ لڑائی ایک ہی گروہ کے دو مولویوں کے طبقوں کے درمیان ہے۔ شکر ہے ہمارا کوئی بندہ شریک نہیں۔ ایک ہی فرقہ اس کا ایک مولوی کہتا ہے عورت کی دیت پوری دوسرا کہتا ہے عورت کی دیت آدھی اور ہمارے ایک بزرگ جو بڑا اونچا طرہ پہنتے ہیں اچھے آدمی ہیں۔ ان کا بیان چھپا ان پر گرفت کی گئی انہوں نے کہا میں نے تو دونوں میں سے کسی کو غلط نہیں کہا نہ دونوں میں سے کسی کو صحیح کہا ہے۔ پرانا فارمولا کہ دونوں صحیح ہیں۔ جو کہتا ہے عورت کی دیت آدھی ہے وہ بھی صحیح ہے جو کہتا ہے پوری ہے وہ بھی صحیح ہے۔ فرق کیا پڑتا ہے؟
اس طرح کہ جس طرح ایک جاہل نے علم کا جبہ اور قبہ پہن لیا۔ لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لئے گاؤں میں آیا۔ لوگوں نے دیکھا بہت بڑے عالم آئے ہیں۔ مسئلہ پوچھا حضرت جی اس بارے میں شریعت کا حکم کیا ہے؟ اب آدمی پریشان ہو گیا مسئلے کا علم نہیں۔ کہنے لگا اس کے بارے میں اسلام کی دو رائے ہیں۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک تو ہو گا ہی ۔ کیا ہے ؟
اہلحدیث کا جرم صرف یہ ہے کہ ہم یہ کہتے ہیں ہم فرقہ نہیں۔ اگر لوگوں کو فرقہ بندی سے روکتے ہیں تو خود بھی فرقہ کہلانے کو پسند نہیں کرتے۔ ہم کوئی گروہ نہیں ہم کوئی جماعت نہیں۔ او کمالیہ کے لوگو آج مسئلہ ذرا سمجھ جانا۔ کوئی کہہ سکتا ہے لوگوں کو کہتے ہو فرقہ بندی مت اختیار کرو اپنا الگ فرقہ بنایا ہوا ہے۔ کسی کو اگر یہ غلط فہمی ہو تو آج دل سے نکال دے۔ اہلحدیث کسی فرقے کا نام نہیں ہے نہ ہم جماعت ہیں۔ فرقے وہ ہوتے ہیں جو اپنے بڑوں کے نام پہ قائم ہوتے ہیں۔ جماعتیں وہ ہوتی ہیں جو بستیوں کے نام پہ بنتی ہیں۔ ہم نہ جماعت ہیں نہ فرقہ ہیں ہم تو اس بات کی ایک تحریک ہیں کہ لوگو آؤ فرقہ بندیوں کو چھوڑو مدینے