کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 291
یہ فضول بات ہے کہتے ہیں جناب اس کی بات بھی سچی اس کی بات بھی سچی اور فرق کتنا؟ ایک کہتا ہے ایک چیز حرام ہے دوسرا کہتا ہے حلال ہے۔ حضرت صاحب آتے ہیں کہتے ہیں دونوں ٹھیک ہیں۔ مذہب کیا ہوا؟ سبب کیا ہے؟ میں کسی کا دل نہیں دکھانا چاہتا کہ اپنا مذہب دلوں کو توڑنا نہیں دلوں کو جوڑنا ہے۔ اپنی عادت دل دکھانا نہیں بلکہ بقول شاعر دل بدست آور کہ حج اکبر است دکھانے سے کیا فائدہ؟ کسی کو برا نہیں کہتے نہ کسی پہ چوٹ کرتے ہیں نہ کسی کو طعن دیتے ہیں نہ کسی کو الزام دیتے ہیں لیکن بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یارو یہ اصول کیوں تراشا گیا کہ سب حق پر ہیں؟ اس لئے کہ بات کی طرف نہیں دیکھا گیا کہنے والے کی طرف دیکھا گیا ہے کہ یہ بڑا آدمی ہے۔ اگر اس کی بات کو غلط کہیں گے توہین ہو جائے گی اور سن لو اسلام کیا سکھاتا ہے؟ اسلام یہ نہیں سکھاتا کہ یہ دیکھو کہنے والا کون ہے ؟ بلکہ اسلام یہ سکھلاتا ہے کہ یہ دیکھو کہہ کیا رہا ہے اور لوگو کتنے افسوس کی بات ہے کہ بزرگوں کی بزرگی کے بچانے کے لئے یہ کہہ دیتے ہو دونوں کی بات ٹھیک ہے۔ ایک مشرق کی ایک مغرب کی اور کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ان میں سے ایک کی بات یا رب کے قرآن کے خلاف ہے یا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے خلاف ہے۔ یہ نہیں سوچتے کہ دونوں کو سچ کہنے سے یا قرآن پہ چوٹ پڑتی ہے یا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پہ چوٹ پڑتی ہے۔ بات کیا ہے؟ بات یہ ہے کہ اسلام کی بنیادوں کو اسلام کے قواعد اصلیہ کو اسلام کے اساس کو لوگوں نے فراموش کر دیا ہے۔ ساری دنیا کے بزرگوں کی بات کو اسلام سمجھ لیا گیا اور سن لو ہمارا آوازہ یہ ہے کائنات کے انسانو ساری دنیا کی بات کا نام اسلام نہیں۔ اسلام یا عرش والے کے کلام کا نام ہے یا مصطفے کی بات کا نام ہے۔ جس کے ساتھ عرش والا ہو وہ سچا ہے۔ جس کے ساتھ مصطفے ہو وہ سچا ہے اور اگر سب کی بات ٹھیک ہے تو پھر اسلام کے اندر حلال و حرام کا