کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 290
ان تنازعتم کہ کسی نہ کسی مسئلے میں اختلاف ہو ہی جاتا ہے۔ اختلاف کا پیدا ہونا ناممکن العمل نہیں ناممکن الوقوع نہیں لیکن اختلاف باقی نہ رکھو۔ جب بھی کوئی مسئلہ سمجھو کہ اس کے بارے میں لوگوں کے اندر دو رائے پیدا ہو گئی ہیں۔ رب کے قرآن کی طرف آؤ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی طرف آؤ۔ پھر اختلاف باقی نہیں رہ سکتا۔ کیوں؟ اس لئے کہ اللہ نے قرآن کی سچائی کو بیان کرتے ہوئے کہا لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا (سورۃ النساء:۸۲) قرآن کے رب کا کلام ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کے اندر کوئی اختلاف کی بات متضاد بات نہیں ہے۔ اللہ کا کلام نہ ہوتا تو اس کے اندر تضاد ہونا چاہئے تھا۔ جہاں تک قرآن کا تعلق ہے رب نے یہ کہا اور جہاں تک نبی کا تعلق ہے مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی، اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی (سورۃ النجم:۲‘۳) نبی اپنی مرضی سے بات نہیں کرتا۔ وہ بولتا تب ہے جب عرش والا بولنے کا حکم دیتا ہے۔ نہ رب کے کلام میں اختلاف‘ نہ نبی کے فرمان میں اختلاف۔ اب اگر اسلام کا نام لے کر مسلمانوں کے اندر اختلاف ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ یہ اختلاف ان دونوں چیزوں سے دوری کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اگر ان دو چیزوں پر عمل کرتے کبھی اختلاف نہیں ہو سکتا تھا اور لوگو! دنیا والوں نے لوگوں کی عقل پہ پردہ ڈالنے کے لئے انہیں بیوقوف بنانے کے لئے ایک اصول تراش رکھا ہے اور وہ یہ ہے جناب یہ بھی صحیح ہے وہ بھی صحیح ہے۔ وہ بھی حق پر ہیں یہ بھی حق پر ہیں۔ ہم پوچھتے ہیں ایک آدمی کہتا ہے اس وقت رات ہے۔ ایک کہتا ہے نہیں دن ہے۔ حضرت صاحب آتے ہیں کہتے ہیں دونوں حق پر ہیں۔ ہم نے کہا ہم کو سمجھاؤ کہ دونوں حق پر کیسے ہو گئے؟ رات کہنے والا بھی سچا دن کہنے والا بھی سچا۔ اگر دونوں سچے ہیں تو پھر ہماری عقل جو ہے اس کو فروخت کر دو۔ اور سن لو طالب علموں کے لئے کہتا ہوں۔ اصول کی بات ہے تعدد لوازم باطل سے ہے۔ حق کبھی تعدد کا حامل نہیں ہوتا۔ ان الحق لا یتعد د