کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 289
بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا. (سورۃ النساء:۵۹) یہاں علماء کرام بیٹھے ہیں‘ کچھ طالب علم بھی ہوں گے۔ پہلے ان کے لئے بات کہتا ہوں۔ قرآن پاک میں اس آیت کے آغاز کے اندر رب ذوالجلال نے امنوا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یٰٓایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ اے مومنو !اور میرے نزدیک اس کا صحیح ترجمہ یہ نہیں ہے کہ اے مومنو بلکہ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے اے ایمان کے دعوے دارو۔ کیونکہ بعد میں کہا ان تنازعتم فی شی فرد وہ الی اللّٰه والرسول ان کنتم تومنون باللّٰه والیوم الاخر اگر ایمان کے دعوے میں سچے ہو تو پھر اپنی ہر بات کو میرے قرآن پر پیش کرو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر پیش کرو۔ اگر اس کا معنی مومنو ہو تو بعد میں’’ان کنتم‘‘ لانے کی ضرورت نہ تھی۔ کہا اگر ایمان کے دعوے میں سچے ہو تو ثبوت فراہم کرو۔ اللہ کس طرح؟ اپنے مسائل کو نبٹاؤ اپنے تنازعات کو حل کرو اپنے اختلاف چھوڑو اپنی گروہ بندیاں توڑو اپنے فرقوں سے بالا و بلند ہو جاؤ اپنی جماعتوں کی دیواریں گرا دو۔ حق کا ساتھ دو باطل کو ترک کرو جھوٹ کو چھوڑو سچائی کو اختیار کرو۔ اللہ پتہ کیسے چلے کہ سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے؟ فرمایا: رد وہ الی اللّٰه و الرسول ہر بات جس کے اندر اختلاف ہو اسے رب کے قرآن پہ پیش کرو نبی کے فرمان پہ پیش کرو۔ جس کا ساتھ رب کا قرآن دے اس کی بات سچی جس کا ساتھ نبی کا فرمان دے اس کی بات سچی چاہے وہ سب سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو اور جس کا ساتھ رب کا قرآن نہ دے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہ دے اس کی بات غلط چاہے وہ کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو۔ یہ معیار عرش والے نے مقرر کیا۔ تو لوگو سن لو اسلام کے اندر فرقہ بندی اختلافات ان کا پیدا ہو جانا کوئی قباحت کی بات نہیں لیکن ان کا باقی رکھنا اسلام کی نگاہ میں یہ درست بات نہیں ہے۔ اسی لئے اللہ رب العزت نے یہ کہا