کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 288
نہیں نازل ہوئی؟ اور کیا ہم مومن ہیں کہ نہیں ہیں؟ اگر تو ہم مومن ہیں مسلمان ہیں نبی کے ماننے والے ہیں حلقہ بگوشان محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہیں دامن رسول سے وابستہ ہیں سرور کائنات کی امت ہیں اللہ کے حضور حاضری اور اس کی بارگاہ میں تقرب کے خواہش مند ہیں تو پھر ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ہمیں اکٹھا ہونا چاہئے فرقہ بندیاں مٹانا چاہئیں اختلاف ختم کرنے چاہئیں تنازعات سلجھانے چاہئیں دل کی کدورتیں مٹانا چاہئیں ایک دوسرے کی بات سمجھنا چاہئے حق کو ماننا چاہئے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم ایک دوسرے کے قریب ہوں ایک دوسرے کی بات سنیں۔ بات سننے کے بعد اس بات کا فیصلہ کریں کہ کس کی بات اچھی کس کی بات غیر درست۔ جس کی اچھی ہو اس کو مان لیں جس کی غلط ہو اس کو چھوڑ دیں۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کوئی پوچھ سکتا ہے یہ فیصلہ کون کرے کہ کس کی بات درست کس کی نا درست کس کی غلط کسی کی صحیح کس کی اچھی کس کی بری؟ اگر فیصلہ مولویوں پر چھوڑیں کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ (سورۃ الروم:۳۲) ہر مولوی اپنی بات کو سچا کہے گا۔ اگر فیصلہ جماعتوں پر چھوڑیں تو ہر جماعت اپنی بات کو درست کہے گی اگر فیصلہ گروہوں پہ چھوڑیں تو ہر گروہ اپنے معاملے کو روا سمجھے گا۔ فیصلہ کون کرے کہ سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے غلط کیا ہے صحیح کیا ہے حق کیا ہے اور باطل کیا ہے؟ اس کے درمیان کون فیصلہ کرے؟ اللہ رب العزت !ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں تونے قران کو کائنات کے لئے ہدایت کا سرچشمہ بنا کر نازل کیا اور قیامت تک آنے والے مسائل کا حل اس میں بیان کیا۔ تو ہی ہم کو بتلا کہ ہم دین کے معاملے میں کس سے فیصلہ لیں کہ سچ پہ کون ہے جھوٹ پہ کون ہے؟ قرآن پاک کے اندر رب ذوالجلال ارشاد فرماتے ہیں آؤ میں تمہیں منصف کی خبر دیتا ہوں میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ سچ اور جھوٹ کا امتیاز کیسے ہو سکتا ہے میں تمہیں خبر دیتا ہوں کہ تمہارے تنازعات کیسے سلجھ سکتے ہیں؟ اللہ تو ہمیں بتلا۔ فرمایا یٰٓایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِمِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ