کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 287
تمام اختلافات کو ختم کروا دیا تمہیں ایک بنا دیا اور تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دی۔ فاصبحتم بنعمتہ اخوانا تم بھائی بھائی بن گئے۔ کنتم علی شفا حفر من النار تم اختلاف کی وجہ سے آگ کے گڑھے کے کنارے پہ کھڑے تھے۔ اللہ نے اتحاد اور اتفاق سے تمہیں آگ کے گڑھے سے بچا کے جنت الفردوس کا وارث بنا دیا۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ آج ہم اس آیت کریمہ کی روشنی کے اندر یہ دیکھنے کی زحمت گوارہ کریں کہ کیا ہم اس آیت کے مخاطب ہیں کہ نہیں ہیں؟ اگر تو ہم مومن اور مسلمان ہونے کے دعوے دار ہیں تو پھر یقینا اس آیت کا سارا خطاب ہم سے ہے۔ اگر یہ خطاب ہم سے ہے تو ہم سوچیں کہکیا ہم فرقہ بندیوں سے بالاتر ہوکر آپس میں ایک دوسرے سے محبت و پیار کر کے اللہ کی رسی کو اکٹھے ہو کر تھامنے کے لئے آمادہ و تیار ہیں کہ نہیں؟ ایک ہے کہ ہم تھامے ہوئے ہیں کہ نہیں؟ اس میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ ہم سب مل کر اللہ کی رسی کو تھامے ہوئے نہیں ہیں۔ کوئی اپنا رخ مشرق کی طرف کئے ہے کوئی مغرب کی طرف کئے ہے کوئی شمال کی طرف کوئی جنوب کی طرف اور آپس میں ایک دوسرے سے اتنی دوری ہے اتنی اونچی دیواریں درمیان میں کھڑی کی گئی ہیں کہ دوسرے کا چہرہ بھی نظر نہ آسکے اور اس قدر بعد اور دوری پیدا کی گئی ہے کہ اکٹھے ہونا تو بڑی بات ہے مسئلہ یہ بتلایا جاتا ہے کہ دوسروں کی بات بھی نہ سنو۔ کیونکہ اگر بات سن لی تو ایک ہونے کا امکان پیدا ہو جائے گا۔ اس لئے ایک نہ ہونے کے لئے سب سے تیر بہدف نسخہ یہ ہے کہ تم بات ہی نہ سنو۔ اللہ کہتا ہے ایک ہو جاؤ اور ہم جدائی کے لئے دیواریں کھڑی کرتے ہیں کہ نہیں ہم نے ایک نہیں ہونا۔ اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ آیت کریمہ ہمارے لئے نازل ہوئی ہے کہ