کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 282
ہائے !ہنستے ہو رونے کی بات ہے ۔ خدا کی قسم یہ فاطمہ کا باپ ہے ناں جس کے بارے میں جو تمہارے جی میں آتا ہے کہہ دیتے ہو۔ اپنے باپ کے بارے میں کبھی ایسی بات تو کرو۔ یہ حسن و حسین کا نانا ہے جس کے بارے میں کہتے ہو زندہ دفن کر دیا۔ کبھی اپنے باپ کو بھی زندہ دفن کرنے کی سوچی ہے ؟ اس کا نام محبت ہے ؟ میں کوئی تلخ بات نہیں کرنا چاہتا کہ تلخی سے دل سنورتے نہیں بگڑتے ہیں۔ میں تو یہ کہتا ہوں بات کیا ہے ؟ آؤ آج مسئلہ حل کر لیں اور آج حل کر کے جائیں گے۔ ان شاء اللہ۔ سنو بات۔ کوئی ایک مسئلہ لے آؤ۔ کل کا ہی لے لو۔ کوئی کچی پکی حدیث بتلا دو۔ کوئی پکی نہیں کچی دکھا دو۔ اور یارو لمحے بھر کے لئے تم سے ذرا رخ گفتگو ہٹا کر ان سے کہتا ہوں جو آج خمینی کی تصویریں پکڑے خود شامل جلوس ہو گئے۔ تمہیں مبارک ہو کہ تمہارا قارورہ آپس میں اچھا مل گیا ہے۔ ہم کو تو بزرگوں کا گستاخ کہتے ہو۔ صدیق کے گستاخ سے تمہاری صلح فاروق کے توہین کرنے والے سے صلح عثمان کو گالی دینے والے سے تمہاری صلح۔ او اس عثمان سے‘ اس عثمان سے‘ اس عثمان سے کہ جب وہ آیا تو کائنات کا امام اٹھ کے بیٹھ گیا۔ اپنے زانوئے مبارک پہ کپڑا سیدھا کر لیا اور جب ام المومنین نے کہا آقا میرا بابا صدیق آیا آپ لیٹے رہے فاروق آیا جس کی ہیبت سے شیطان لرزے آپ لیٹے رہے ذوالنورین آیا آپ اٹھ کے بیٹھ گئے کپڑا سیدھا کر لیا؟ کہا عائشہ الا استحیی رجل تستحیی منہ الملائکہ کیا میں اس کی حیا کا پاس نہ کروں جس کی حیا کا پاس آسمان کے فرشتے بھی رکھتے ہیں۔ اس کو گالی دینے والے سے تمہاری صلح اور ہم تو کسی کو گالی نہیں دیتے۔ صرف یہ کہتے ہیں کہ تموڑی شاہ بزرگ نہیں ہو سکتا۔ اگر بزرگ ہوتا تو نام بھی بزرگوں والا رب رکھواتا۔ جس کو رب نے بزرگ بنانا ہوتا ہے اس کا نام بھی خود رکھواتا ہے۔ فَھَبْ لِیْ مِنْ لَّدْنْکَ وَلِیًّا. یَّرِثُنِیْ وَ یَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ وَاجْعَلْہُ رَبِّ رَضِیًّا. یٰزَکَرِیًّا اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمِ اسْمَہٗ یَحْیٰی لَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا ( سورۃ مر یم :۵‘۶‘۷)