کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 28
دنیا کے اندر ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کی جو رسم چلی ہے وہ صرف مرتدوں سے نہیں چلی۔ اس گناہ کے اندر کئی اپنے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے ختم نبوت کے عقیدے کا زبان سے اقرار تو کیا لیکن عملی طور پر غیر نبی کو نبی کے مقام پر رکھ کر ختم نبوت کا انکار کیا۔ ختم نبوت کا قائل صرف وہ شخص ہے جو اپنی زبان اور اپنے عمل سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کی بات کو قابل حجت نہیں سمجھتا۔ جو نبی کے بعد کسی اور کی بات کو حجت سمجھتا ہے وہ عملی طور پر نبوت کا منکر ہے اس نے عملی طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم الرسالت کا انکار کیا ہے ۔
مومن وہ ہے ختم نبوت کا قائل وہ ہے اللہ کے رسول کی رسالت کا ماننے والا وہ ہے جو نبی کے بعد کسی کی بات کی طرف آنکھ اٹھا کے دیکھنے کی جرات نہ کرے اور ظلم کی بات ہے افسوس کی بات ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا نبی اللہ کا پیغمبر اللہ کا رسول ناطق وحی وحیسے بولنے والا اپنی حدیث میں یہ ارشاد کرے
لو کان موسی حیا لما وسعہ الا اتباعی
او میری امت کے لوگو اگر موسی بھی زندہ ہو کے آجائے اس کا حکم بھی نہیں چلے گا۔ چلے گا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم چلے گا۔ نبی یہ کہے کہ کوئی نبی بھی آجائے میرے آجانے کے بعد اس کا حکم بھی نہیں چل سکتا اور ہم مسلمان کہلانے والے امتیوں کی بات کو نبی کے مقابلے میں پیش کریں۔ پھر ہم سوچیں کہ ہمارا ایمان کیا ہے؟
اگر موسی کلیم اللہ جیسا جلیل القدر پیغمبر رسول وہ نبی کے بعد آجائے اس کی بات نہیں چل سکتی تو کسی امتی کی کیسے چل سکتی ہے ؟
آج ہماری گمراہی کے کئی اسباب ہیں۔ کہ
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ
خود دکھایا ہے میرے گھر کے چراغاں نے مجھے
ہم نے نبوت پر ڈاکے ڈالنے کے راستے خود کھولے ہیں۔ ہم نے جب کہا کہ نبی کی بات کو رہنے دو فلاں فقیہہ کی بات کافی ہے فلاں امام کی بات کافی ہے فلاں محدث کی بات کافی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے نبی کی نبوت اور امامت کو آج تک باقی نہیں مانا۔