کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 279
میں ہوا ہے۔ وہ اکیلا چلے تو پرانی کتابوں کے اوراق پلٹے جاتے ہیں اگر جلوس لے کے نکلتا تو کسی کو پتہ نہ چلتا؟ کوئی بات کرتے ہو؟ ہم نے تو اس کو رات کی تاریکی میں نکلتے ہوئے دیکھا اور اس نکلنے کو دنیا کی کتابوں میں ثبت ہوتے ہوئے دیکھا۔ ہم نے تو دیکھا کہ وہ رات کی تاریکی میں اپنے غلام اسلم کو لے کے نکل رہا ہے۔ رات کی تاریکی میں اکیلا ہے۔ اسلم کہتا ہے امیر المومنین ساری کائنات سوئی ہوئی اور تو جاگ رہا ہے؟ فرمایا چوکیدار کو جاگنے کے لئے ہی تو رکھتے ہیں سونے کے لئے تو نہیں رکھتے اور نکلا۔ تنہا نکلا ساتھ ایک غلام نکلا بستی سے باہر نکلا صحرا میں نکلا۔ دور ایک ٹمٹماتا ہوا دیا دیکھا۔ وہاں کی طرف بڑھا۔ ایک بندے کو غم زدہ اور افسردہ دیکھا پریشان اور حزنیہ عالم میں دیکھا۔ پوچھا کیا بات ہے رات گئے جاگ ہی نہیں رہے پریشان بھی ہو؟ کہا تم کو کیا پڑی ہے ایک مسافر سے پوچھتے ہو؟ کہا میں نے ویسے ہی پوچھ لیا ہے۔ ناراض کیوں ہوتے ہو؟ اس نے کہا ناراضگی کی بات نہیں میں غم زدہ ہوں پردیسی ہوں غریب الدیار ہوں مسافر ہوں غریب الوطن ہوں۔ کہا مومن ہو مسلمان ہو؟ کہا رب کا شکر ہے مومن ہوں مسلمان ہوں۔ کہا مومن مومنوں کی بستی میں اجنبی نہیں ہوتا۔ تم اپنے گھر میں ہو۔ کہو کیا بات ہے ؟ کہا بچے کی پیدائش کا وقت ہے کوئی بھی تو پاس نہیں ہے۔ فرمایا میں جو پاس ہوں گھبراتے کیوں ہو۔ گھر آیا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو اٹھایا علی کی لخت جگر کو اٹھایا۔ ایک مسافر اور اجنبی کے ہاں یوم پیدائش ہے۔ خاتون اول کو اٹھایا فاطمتہ الزہرا کے جگر گوشے کو اٹھایا اور کہا ام کلثوم آج ثوابوں کے سمیٹنے کا دن آیا ہے۔ آؤ ایک اجنبی مسافر کی بیوی کی تیمار داری تو کر دو عرش والا راضی ہو جائے گا۔ وہ آئی تیماری داری کی دایا کے فریضے کو سرانجام دیا۔ امیر المومنین کی