کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 277
حاضر و ناظر نہ مانتے ہوئے پاس جانے کے لئے تیار ہوں۔ سنو تو سہی تم کہتے ہو حاضر بھی ہیں ناظر بھی ہیں۔ میں حاضر بھی نہیں مانتا ناظر بھی نہیں مانتا۔ پھر بھی کہتا ہوں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا حکم کائنات کے ذرے ذرے میں رچا ہوا اور کائنات کا جو ذرہ بھی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو نہیں مانتا میں اس ذرے کو مسلمان ہی نہیں مانتا ہوں۔
کل کی بات لے لو۔ جھگڑے کی بات کیا ہے؟
چلو جن کے نام کا دن مناتے ہو ان سے پوچھو کہ پیدائش کے بعد وہ بھی کچھ دن زندہ رہے کہ نہیں۔ کتنے برس؟
۴۰ سال نبوت سے پہلے کے ۱۲ برس رسالت کے بعد کے۔ نبوت سے پہلے کبھی دن منایا ہو تب ماننے کے لئے تیار ہیں۔ نبوت کے بعد کبھی سالگرہ منائی ہو تب ماننے کے لئے تیار ہیں۔ ہم کو کیا ہے ؟ تم حدیث دکھا دو ہم گردن کو جھکا دیں گے۔ کیوں کہ ہم نے تو سیکھا ہی یہی ہے کہ؎
ادھر حکم محمد ہو ادھر گردن جھکائی ہو
ہم کو کیا ہے؟
دکھا دو اور میں تم سے وعدہ کرتا ہوں اگر آج دکھا دو کل جلوس نکال دیتے ہیں تاکہ غلطی کی معافی جلدی ہو۔ کہیں گے غلطی ہو گئی ہے اور بارہ کو نہیں نکال سکے چودہ کو نکالیں گے پھر پندرہ کو بھی نکال دیں گے تاکہ خمیازہ ہو جائے۔ بتلاؤ یا پھر ایک بات کہہ دو کہ چلو حضور نے تو نہیں نکالا ان کے یاروں نے نکالا تھا۔ فیصلہ کر دو یا سیدھی بات کرو جس طرح پہلے کہا تھا بڑا نہیں مانتے منصف نہیں مانتے یار نہیں مانتے پیار نہیں مانتے جھوٹے تھے یاروں کے پردے میں دشمن تھے برسراقتدار آئے محمد کی خوشی نہ منائی۔ یار نہ تھے وفادار نہ تھے جانثار نہ تھے فداکار نہ تھے۔ دشمن تھے کسی نے صدیق کا لبادہ پہنا کسی نے فاروق کا لبادہ پہنا کسی نے ذوالنورین کا لبادہ پہنا کسی نے حیدر کرار کا لبادہ پہنا یا یہ کہو ہم پھر بھی ماننے کے لئے تیار ہیں۔ بزدلی کی بات کیوں کرتے ہو؟
کھل کے بات کرو یا ادھر کی بات کر یا ادھر کی بات کر۔ ادھر ادھر کی کیا بات کرتا ہے؟ سیدھی بات کر۔ ادھر ادھر کی بات