کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 276
تھا کہ جبرائیل تیری طرف سے جواب دے رہا تھا۔ تونے کیوں جواب دے کے فرشتوں کو دور کر دیا ہے۔ اس کو کہو اور گالی دے لے۔ تیری طرف سے تیرے رب کے فرشتے جواب دیتے ہیں۔ تو جواب نہ دے۔ جتنی جی چاہے گالیاں دے لیں۔ کیا فرق پڑتا ہے ؟ ہم تو یہی کہیں گے کہ کتنے شیریں ہیں تیرے لب‘ کہ رقیب گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا اور تمہارے لب تو ویسے ہی بڑے شیریں ہوتے ہیں کیونکہ پان سے رنگے ہوئے ہوتے ہیں اور پان بھی ملٹھی والا۔ ہم کو کیا ہے جو جی چاہے کہہ لو۔ ہمیں کوئی بات نہیں ہے لیکن ذرا آؤ تو سہی۔ قریب تو آؤ۔ قریب آجاؤ دل تبدیل کر لیں۔ ذرا قریب تو آؤ۔ ان کو پتہ ہے جو قریب گیا پھر گیا۔ انہوں نے کہا جس نے مصافحہ کیا اس کا بھی نکاح ٹوٹ گیا ہے۔ ہمارا مولوی عبد الستار ایک دن گوجرانوالہ کے چوک میں کھڑا ہو گیا۔ جو آئے اس سے مصافحہ کر لے۔ میں نے کہا مولوی عبد الستار کیا کر رہے ہو؟ کہنے لگا ان کے نکاح توڑ رہا ہوں۔ ذرا سوچو تو سہی ہم کیا کہتے ہیں تم کیا کہتے ہو اور اسی بات کو دیکھ کر ذرا چودہ سو سال پیچھے تو پلٹو۔ اتنی بات ہی سن لو کہ کس کی بات کس سے ملتی ہے۔ کونین کے تاجدار کے پاس معاہدہ ہوا کہنے لگے جو تمہارا ہمارے پاس آئے گا ہم واپس نہیں کریں گے اور جو ہمارا تیرے پاس آئے گا تو پلٹا دے گا۔ آقا نے فرمایا مجھے منظور ہے۔ فاروق نے ہاتھ پکڑ لیا۔ آقا یہ انصاف کی بات ہے کہ ہمارا جائے یہ نہ لوٹائیں ان کا آئے واپس کر دیں؟ فرمایا فاروق ہم سے کوئی جاتا ہی نہیں ہے اور ان کا کبھی قریب آجائے تو پلٹتا ہی نہیں ہے۔ اس لئے تو روکتے ہیں۔ ہم نہیں روکتے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بات کیا ہے ؟ کس بات کی لڑائی ہے ؟ جھگڑا کیا ہے ؟ آجاؤ کل کی بات رکھ لو۔ بس اک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا اور پھر ذرا عشق بھی دیکھ لو۔ تم حاضر و ناظر کہتے ہوئے بھی ان کے پاس نہیں جاتی میں