کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 275
آجاؤ؎ ادھر آ اے دلبر ہنر آزمائیں تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں اور میری طرف سے اجازت ہے لکھ کے دیتا ہوں۔ میں ذمہ دار ہوں میرا اعلان سن لو۔ کعبے کے رب کی قسم کعبے کے رب کی قسم کعبے کے رب کی قسم میری طرف سے یہ ذمہ داری ہے لکھ کے دیتا ہوں ہماری اس مسجد میں جمعہ پڑھاؤ گالیاں دو۔ جتنی گالیاں یاد ہیں سب دے لو۔ خدا کی قسم ہے جتنی گالیاں چاہو دے لو۔ یوتھ فورس کے جوانوں کا بھی میں ذمہ دار ہوں کوئی بات نہیں کرے گا۔ جس کو چاہو متاثر کر لو۔ اپنی مسجد ہم کو دے دو۔ تھوڑا سا قران سنائیں گے تھوڑا سا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کا فرمان سنائیں گے۔ فیصلہ ہو جائے گا۔ لاہور میں منظور ہے ملتان میں منظور ہے اور خدا کی قسم تم یہ بات کرو ہمارے سفر کا بہت سا حصہ خود بخود طے ہو جائے گا۔ تم کر کے تو دیکھو۔ تم کیوں گھبراتے ہو؟ ہمیں تو کوئی گھبراہٹ نہیں ہے۔ جو جی چاہے لے آؤ۔ حضرت الامیر کی مسجد میں چاہو تب تیار ہیں۔ اس فقیر کی مسجد میں چاہو تب تیار ہیں۔ ہاتھ تم رکھو حاضر میں ہوں اور پھر یہی کہوں گا؎ ادھر آ اے دلبر ہنر آزمائیں تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں کیونکہ یہاں تیروں کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔ اور اپنے پاس کیا ہے؟ اپنے پاس وہی ہے جو کائنات کے امام نے کہا تھا۔ صدیق کہتا ہے ایک کافر نے گالی دی۔ دل پہ جبر بھی کیا خود صبر بھی کیا۔ خاموش رہے۔ پھر گالی دی پھر صبر کیا جبر کیا خاموش رہے۔ اس نے پھر گالی دی۔ آدمی تو جوان تھے سردار بھی تھے چوہدری بھی تھے۔ کہنے لگے او تیری ایسی کی تیسی کیا سمجھتا ہے؟ بس تو گالی دے سکتا ہے؟ کہا ابھی میرے منہ سے جواب نکلا میں نے دیکھا کہ فضا میں کائنات میں خوشبو پھیل گئی۔ میرے کندھے پہ ایسا معلوم ہوا جیسے ریشم کا ایک گٹھرا رکھ دیا گیا ہو۔ پلٹ کے دیکھا کونین کا تاجدار پیچھے کھڑا تھا۔ مجھے دیکھا میرے چہرے کو اٹھایا۔ کہنے لگے صدیق تجھے پسند نہ