کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 273
بھائی ؟ تمہارا مسلک نفرت سے نہیں پھیلا محبت سے پھیلا ہے کیونکہ تم اس رسول کے پیروکار ہو جس نے کہا تھا؎ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے ان ٹیپ ریکارڈز کو اٹھاؤ اپنے دوستوں کو کہو ہم سے لڑ لو۔ لیکن ذرا سن تو لو۔ بات تو سن لو۔ کبھی سننے سے تو ایمان خراب نہیں ہو جاتا۔ مزے کی بات تو یہ ہے ہمارے دوستوں نے فتوے ہی کچھ ایسے دئیے ہیں کوئی سنے ہی نہیں۔ کہا ان کے پیچھے نماز پڑھو تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ بندہ پوچھے نماز اس نے پڑھی ہے۔ اس کی بیوی کا کیا قصور ہے؟ اس بیچاری کا نکاح کیوں ٹوٹ گیا ہے؟ کہا ان کی آواز نہ سنو۔ جو ان کی مجلس میں جائے گا اس کا بھی نکاح ٹوٹ جائے گا۔ مجلس نہ ہو گئی بدہو کا آوا ہو گیا جو اوپر گر جائے گا اور بندہ نیچے آکے دب جائے گا۔ تم ان کو پیار کی بات سناؤ۔ منوانا ہمارا کام نہیں ہے اور منوانا تو عرش والے نے اپنے محبوب کو کہا کہ تیرا کام بھی نہیں ہے۔ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ( سورۃ قصص :۵۶) جس کو تو چاہے نہیں منوا سکتا۔ مانتا وہی ہے جس کو عرش والا چاہتا ہے۔ او بھئی ہمارا کیا ہے۔ ہم تو بنجارے ہیں۔ سودا اللہ رسول کا لے کے آئے ہیں۔ جس کو کھرا لگے لے لے نہ کھرا لگے ہم کو گالی دینے سے کیا فائدہ ہے؟ لوگ کبھی بنجارے کو پتھر تو نہیں مارا کرتے۔ پتھر تو نہیں پھینکتے۔ جی میں آیا تو سودا لے لیا نہیں تو نہ لیا۔ دیکھنے میں کیا حرج ہے۔ یہ یار جو تمہاری آنکھوں پہ پٹیاں باندھتے ہیں اس لئے باندھتے ہیں کہ کہیں سودے کے کھرا ہونے کی وجہ سے تمہارا جی نہ آجائے دل نہ آجائے اور کائنات کا دل آیا ہوا ہے۔ سن لو !اس کھرے سودے پہ کائنات کا دل آیا ہوا ہے اور علامت یہ ہے دل نہ آیا ہوتا تو آج اس بستی میں جہاں کہیں رسول کے پروانوں کی ایک مسجد نہ تھی دس مسجدیں کیسے بن جاتیں؟ دل آیا ہوا ہے۔ آئے ہوئے دل ہی کو تو روک رہے ہیں۔ وگرنہ لڑائی کس بات کی ہے؟ تم کہو۔ ان کی بات بھی سنو ہماری بھی سنو۔ ہم نے اپنے بندوں کو کبھی نہیں کہا تم بھولی