کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 272
یہاں خدیجہ کی بات بھی کرتے ہو کہ وہ مالدار تھیں یہ فقیر تھے اور اس نے مال دے کر ان کو تونگر بنا دیا تھا۔ یہاں آمنہ کی بات بھی کرتے ہو کہ چھ سال کے تھے یتیم چھوڑ گئیں اور پھر یتیمی میں پرورش پائی پروان چڑھے۔ یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی پھر بشریت کے بارے میں غلطی لگ جائے ہمیں سمجھ نہیں آتی ہے۔ باپ بھی ہے بیٹا بھی ہے سسر بھی ہے داماد بھی ہے بھائی بھی ہے خاوند بھی ہے شوہر بھی ہے تاجدار بھی ہے پھر بشر نہیں ہے؟ پھر کیا ہوتا ہے؟ ہمیں کوئی بتلاؤ کسی نور کا بیٹا بتلاؤ کسی نور کا باپ بتلاؤکسی نور کا داماد بتلاؤ کسی نور کا سسر بتلاؤ۔ ہم سے پوچھو اس کا داماد عثمان بھی ہے حیدر کرار بھی ہے۔ اس کا سسر فاروق بھی ہے صدیق اکبر بھی ہے۔ اس کا بیٹا طیب بھی ہے طاہر بھی ہے قاسم بھی ہے اور وہ ابراہیم بھی ہے جو فوت ہوا ہاتھوں پہ رکھا ہوا اور نبی کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی برس رہی ہے اور کہنے والا کہتا ہے آقا تو بھی رو رہا ہے؟ فرمایا میرے جگر کا ٹکرا آج میرے ہاتھوں میں اس کی لاش پڑی ہے اگر میں نہ روؤں تو کیا کروں؟ روتا ضرور ہوں‘ زبان سے یہی کہتا ہوں اللہ ایک بیٹا تھا ساری کائنات لے لے تب بھی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کی زبان سے تیرے شکر کے علاوہ کوئی لفظ نہیں نکلے گا۔ پھر بات تو سنو ذرا۔ تعصب کی بات نہ کرو۔ آج اختلاف کی بات نہیں کرتا۔ کوئی حل کی بات تو کر لیں۔ کوئی اتفاق کی بات بھی آج سن لو۔ یہ بات ذرا یاد رکھنا۔ اور وہابیو تم بھی بڑے سنگ دل ہو۔ میں سچی بات کہتا ہوں اپنوں کے خلاف ہو تب بھی بیگانوں کے خلاف ہوتب بھی۔ تم بھی بہت زیادہ ہو گئے ہو ناں۔ اب لڑنے کے لئے تیار رہتے ہو۔ تم کہتے ہو؎ گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں یہاں اب میرے رازداں اور بھی ہیں اتنے وہابی دیکھ کر تو جو بالکل بزدل ہو وہ بھی شیر ہو جاتا ہے۔ سچی بات ہے کبھی کہتے تھے چراغ لے کر ڈھونڈو وہابی نہیں ملتا۔ اب پتھر اٹھاؤ نیچے سے وہابی نکل آتا ہے۔ لڑتے کیوں ہو