کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 271
ہم نے بارہ وفات کا نام لے لے کے تم سے بارہ وفات چھڑوائی ہے۔ ہمارے شکر گزار ہو۔ ہم سے کیا لڑتے ہو؟ ہماری دوستی تو دیکھو۔ ہم نے کہا موت مانتے نہیں موت کا دن مناتے ہو۔ ہم نے اصلاح کی تھی۔ کل تک اخبار میں اشتہار چھپتے تھے بارہ وفات اور یہ دن ہے بھی وفات کا۔ مورخین کا اتفاق ہے کہ ولادت تو نو کو ہوئی تھی بارہ کو تو وفات ہی ہوئی ہے۔ تب بھی ہماری بات مانی تھی آج بھی ہماری بات مان لو۔ تب یہ وفات کا اختلاف تھا۔ اب کہنے لگے چلو تمہاری بات مان تو لی تھی۔ اب تو ولادت کا مناتے ہیں۔ ہم نے کہا کبھی نور کی بھی ولادت ہوئی ہے؟ بتلا دو۔ ہم نے ایک نوریوں کے سردار کی داستان بھی پڑھی ہے جو معراج کی رات میرے آقا کے براق کی لگام تھامے ہوئے تھا۔ اس کی بھی ذرا ولادت کی تاریخ تو بتلاؤ کہ جبرائیل کس دن پیدا ہوا ہے؟ سیدھے لوگ ہیں۔ ہم کامونکی میں رہتے ہیں‘ ہمارے اتنی عقل نہیں ہے۔ تم ہم کو بتلا دو ہم مان لیں گے۔ ہم کو بتلاؤ۔ کچھ مانتے بھی تو چلو۔ او میلاد مناتے ہو تو یہ بھی بتلاؤ کہ کبھی نور بھی پیدا ہوا ہے؟ میں نے ایک دفعہ کہا تھا۔ عیسائیوں کو غلطی لگ جائے تو کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ کیونکہ اس کا باپ نہیں تھا اور نور کا باپ … بیٹا بھی کوئی نہیں تھا اور نور کی کوئی اولاد … بیوی بھی نہیں تھی اور نور کی کوئی بیوی … غلطی لگ جائے تو کوئی بات ہے۔ یہاں صدیقہ کائنات کا ذکر بھی کرتے ہو کہ اس کے شوہر تھے۔ یہاں طیب و طاہر و قاسم و ابراہیم کا ذکر بھی کرتے ہو کہ ان کے باپ تھے۔ یہاں خدیجہ کی بات بھی کرتے ہو کہ ان کے تاجدار تھے۔ یہاں ابو طالب کی بات بھی کرتے ہو کہ ان کے نگہدار تھے۔ یہاں عبد المطلب کی بات بھی کرتے ہو کہ ان کے پاسدار تھے۔