کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 27
امامت و رسالت و نبوت میں بھی کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ کوئی شخص کائنات میں ایسا نہیں ہے جس کی بات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے مقابلے میں کوئی حیثیت رکھتی ہو۔ ایک انسان اللہ کی وحدانیت کا قائل ہے۔ اللہ کی ربوبیت کو مانتا ہے اللہ کی الوہیت پر یقین رکھتا ہے لیکن حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں شرک کا ارتکاب کرتا ہے۔ کس طرح؟ کلمہ تو مدینے والے کا پڑھتا ہے لیکن حکم کسی اور کا مانتا ہے فرمان کسی اور کا تسلیم کرتا ہے۔ اس نے شرک فی الرسالت کا ارتکاب کیا اور وہ لوگ جو امامت کے لئے راہنمائی کے لئے راہبری کے لئے مدینے کو چھوڑ کر کسی اور بستی کی طرف دیکھتے ہیں انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو صحیح طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ چاہے وہ بستی بصرے کی ہو چاہے کوفے کی چاہے بغداد کی ہو چاہے شام کی چاہے ہندوستان کی ہو چاہے بریلی کی جس شخص نے اپنی دینی راہنمائی کے لئے مدینے کو چھوڑ کر کسی اور بستی کی طرف دیکھا اس کا اسلام درست نہیں ہے۔ اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو صحیح معنوں میں تسلیم نہیں کیا۔ تسلیم اس نے کیا جس نے اپنی راہنمائی کے لئے دیکھا یا عرش والے کے قرآن کی طرف دیکھا یا مدینے والے کے فرمان کی طرف دیکھا۔ جس نے ان دونوں چیزوں کو چھوڑ کر کسی بڑے سے بڑے انسان کسی بڑے سے بڑے بزرگ کسی بڑے سے بڑے عالم کسی بڑے سے بڑے محدث کسی بڑے سے بڑے فقیہہ کی طرف دیکھا رب کعبہ کی قسم وہ نہ مومن ہے اور نہ مسلمان ہے۔ مومن اور مسلمان وہ ہے جس کا عقیدہ یہ ہو کہ مدینے والے کے حکم کے مقابلے میں بصرے کوفے بغداد بریلی سہارنپور اور کسی دوسرے شہر کی بات کو ماننا تو بڑی بات ہے اس کی طرف پلٹ کے دیکھنا بھی حرام ہے۔ جس نے کسی اور کی طرف پلٹ کے دیکھنا بھی گوارا کر لیا اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں کسی دوسرے کو شریک ٹھہرا لیا اور اس نے نبی کی ختم نبوت کا انکار کر دیا۔ اس نے اپنے عمل سے یہ بات ثابت کی ہے کہ میں رحمت کائنات پیغمبر عربی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین تسلیم نہیں کرتا۔ اگر وہ خاتم النبیین سمجھتا اگر وہ نبی پر نبوتوں کو ختم سمجھتا تو نبی کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی طرف دیکھنا گوارا نہ کرتا۔ اور آج ایک بڑا اہم مسئلہ آپ کو سمجھائے دیتا ہوں۔ اس کو یاد رکھئے گا۔