کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 269
ہوکمانڈرانچیف بھی ہو حکمران بھی ہو سلطان بھی ہو شہنشاہ عالم بھی ہو منصف بھی ہو قاضی بھی ہو جج بھی ہو اور پھر مربی بھی ہو استاد بھی ہو شیخ بھی ہو اور اپنے کرتے کو اٹھا کے کہے لوگو کسی کے خلاف انصاف کے خلاف بات ہو گئی ہو تو محمد سے یہاں بدلہ لے لیخدا کی بارگاہ میں دعوی دائر نہ کرے۔ کوئی ہے ایسا منصف ؟ بعض منصفوں کے بارے میں شک ہوتا ہے۔ میں ہوں یزدانی کا کیس ہو میرے بارے میں شبہہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ مجھے اس سے محبت ہے میں اس کے خلاف فیصلہ نہیں کر سکتا۔ کسی اور کا کیس ہو اس کے بارے میں شبہہ ہو سکتا ہے کہ اس کی اس کے ساتھ رشتہ داری ہے اس کے بارے میں انصاف نہیں کر سکے گا۔ منصف؟ ایسا منصف جو اپنے بارے میں بھی منصف ہے لوگوں کے بارے میں کیا ہو گا؟ حدیث پاک میں آیا ہے۔ ایک یہودی جس کے پاس میرے آقا کی زرہ رہن رکھی ہوئی تھی۔ ایک دن آیا اپنے قرضے کا مطالبہ کیا اور ہاتھ گریبان تک جا پہنچا۔ نبی کے گریبان کو تھام لیا۔ فاروق پہ لرزہ طاری ہو گیا۔ لوگوں نے دیکھا ہاتھ تلوار کے دستے پہ کانپ رہا ہے۔ آقائے کائنات کی نگاہ اٹھی۔ فاروق کے تمتماتے ہوئے چہرے کو دیکھا۔ پھر اس کے لرزتے ہوئے ہاتھ کو تلوار کے دستے پر حرکت کرتے ہوئے دیکھا۔ ہائے اپنے گریبان تھامنے والے کا خیال بھول گیا۔ جلدی سے کہنے لگے عمر ہاتھ کو ہٹا لو اس کو کچھ نہ کہنا یہ حق دار ہے حق مانگنے آیا ہے۔ منصف ایسا منصف۔ اس منصف پر بھی کوئی شبہ ہے ؟ کوئی مسئلے حل تو کریں بھائی۔ اختلاف مٹانے کے لئے کوئی بات طے تو کر لیں۔ ہمارے اندر اختلاف ہو گیا ہے۔ کوئی بات نہیں ہے سگے بھائیوں میں بھی ہو جاتا ہے۔ میں کسی کو برا نہیں کہتا۔ جو اختلاف کرتے ہیں ان سے بھی کوئی دشمنی نہیں۔ میں تو صرف یہ کہتا ہوں اختلاف ہو گیا ہے۔ کیا ہوا؟ کوئی حل کی بھی صورت ہے؟ کوئی اس اختلاف کے خاتمے کی بھی صورت ہے؟ سیانے لوگ بنیادی باتیں طے کرتے ہیں۔ کوئی منصف مان لو جو عادل ہو۔ منصف بھی ہو عادل بھی ہو اور بڑا بھی ہو۔ بڑا بھی ہے عادل بھی ہے منصف بھی ہے۔ بڑا اتنا کہ کائنات مل