کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 268
یا کہو ہمارا کوئی بڑا نہیں ہے۔ یا کہو بڑا ہے منصف نہیں مانتے۔ اگر بڑا بھی ہے منصف بھی ہے تو پھر لڑائی کس کی ہے؟ چلو اس بڑے کے پاس چلتے ہیں۔ اس منصف کے پاس چلتے ہیں۔ اور عرش والے تیری رحمت پہ قربان۔ تو نے منصف وہ بھیجا اتنا انصاف کرنے والا کہ جب ایک عورت کی سفارش لے کر لوگ آئے۔ آقا یہ بڑے اونچے گھرانے کی ہے۔ اس کو معاف کر دیں تو منصف کا کیا کہنا ؟ اس نے اپنی نگاہوں کو اٹھایا۔ اس نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )گھرانوں کو نہیں دیکھتا خدا کے قانون کو دیکھتا ہے۔ منصف ایسا جس کے انصاف کی حالت یہ ہے اس نے نہ اپنے کو دیکھا نہ بیگانے کو دیکھا اور اس نے یہاں تک کہا تھا اس کے بارے میں کہا اس کا نام لے کے کہا کہ آسمان کے فرشتے جس کے تقدس کی قسم کھاتے ہیں۔ اس کے بارے میں کہا جو اس کا اپنا لخت جگر تھی اپنے خون کا حصہ تھی۔ اس کے بارے میں کہا جس کی ماں خدیجہ نے حضور کو اس وقت مانا تھا جب کائنات میں کسی نے حضور کو نہ مانا تھا۔ اس کا نام لے کے کہا۔ کہا تم اس عورت کی سفارش کرنے آئے ہو۔ یہ بڑے خاندان کی ہے۔ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی سے اور خدیجہ کی لخت جگر سے تو بڑی نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو اتنا بڑا منصف ہے کہ انصاف کی بات آئے لو ان فاطمتہ بنت محمد سرقت لقطعت ید ھا اگر فاطمہ بھی چوری کرے محمد ہاتھ کاٹتے ہوئے یہ نہ دیکھے گا کہ یہ حسن و حسین کی ماں ہے کہ نہیں ہے۔ اس منصف کو نہیں مانتے؟ منصف ایسا جس نے نہ اپنے کا خیال رکھا نہ بیگانے کا خیال رکھا۔ بعض منصفوں پہ عدم اعتماد بھی ہوتا ہے کہ اپنوں کا لحاظ رکھتا ہے۔ یہ منصف تو ایسا منصف ہے جس نے تئیس برس تک ایسا انصاف کیا کہ تئیس برس کے بعد اپنے آپ کو بھی انصاف کے سامنے رکھتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی ہے۔ کوئی ہے ایسا منصف جس نے تیئس برس حکمرانی کے گزارے ہوں قائد بھی ہو میر کارواں بھی ہو راہبر بھی ہو راہ رو جہاں بھی ہو قافلہ سالار بھی