کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 267
میں عربوں کا بڑا نہیں عجم کا بڑا نہیں مکے کا بڑا نہیں جزیرہ عرب کا بڑا نہیں اپنے زمانے کا بڑا نہیں بلکہ پوری کائنات کے زمانوں کا بڑا پوری کائنات کے مکانوں کا بڑا۔ ساری کائنات کا سب سے بڑا تمہارے پاس ہے۔ تمہارے پاس اتنا بڑا موجود ہے یا پھر کھل کے کہہ دو ہم اس کو نہیں مانتے۔ کیا ہوتا ہے ؟ دو بندوں کے درمیان جھگڑا ہوتا ہے۔ کہتے ہیں جھگڑا مٹاؤ۔ کہتے ہیں فیصل ڈھونڈو حاکم ڈھونڈو۔ ڈھونڈتے ہیں۔ جو دلیر ہوتا ہے کہتا ہے میں اس کو مانتا ہی نہیں۔ تم اسے منصف سمجھتے ہو میں اسے منصف نہیں سمجھتا۔ یا کھل کے کہہ دو کہ اسلام کے اندر کوئی منصف نہیں ہے کوئی حاکم نہیں ہے۔ پھر کشتی کرتے رہو۔ ہم پسپائی اختیار کر لیتے ہیں ۔ ہم کمزور تم طاقت ور۔ پھر ہماری لڑائی کوئی نہیں ہے۔ پھر ہماراجھگڑا کوئی نہیں ۔جھگڑا تو ہم تب بھی نہیں کرتے اب بھی نہیں کرتے ۔ پھر ہمارا تم سے اختلاف بھی کوئی نہیں۔ تم کہہ دو اسلام کے اندر ہمارا کوئی بڑا نہیں ہے۔ یہ کیا بات ہے کہ بڑا بھی مانو اسے منصف بھی نہ سمجھو؟ سمجھنے کی بات ہے۔ ایک نے کہا تھا بڑا مانتا ہوں منصف نہیں مانتا۔ جھگڑا لے کے آیا قضیہ لے کے آیا مسئلہ پیش کیا۔ کہا بڑا یہی ہے اس کے سامنے مسئلہ رکھو۔ مسئلہ رکھا فیصلہ ہوا۔ اس نے کہا بڑا مانتا ہوں منصف نہیں مانتا۔ عرش والے نے کہا۔ سارا قرآن تیس پارے بھرے ہوئے۔ پورے قرآن میں کہیں عرش والے نے اپنی ذات کی قسم نہیں کھائی۔ قرآن کے جتنے حافظ ہیں ان کو کہو الم سے لے کر والناس تک پڑھو پورے قرآن میں رب نے کہیں اپنی ذات کی قسم نہیں کھائی۔ کہیں رات کی کہیں چاشت کی کہیں آمدورفت سورج و چاند کی کہیں ستاروں کی چشمک کی کہیں طلوع آفتاب کی کہیں غروب چاند کی کہیں فجر کی کہیں لیال عشر کی کہیں شفع کی کہیں وتر کی لیکن جب اس نے کہا اسے بڑا تو مانتا ہوں منصف نہیں مانتا عرش والے نے اپنی ذات کی قسم کھائی۔ ادھر یہ چلا ادھر سے جبرائیل امین چلا۔ کہا فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ( سورۃ النساء: ۶۵) میں اپنی کبریائی کی قسم کھا کے کہتا ہوں جو تجھ کو بڑا مان کے تجھ کو منصف نہیں مانتاوہ مومن نہیں ہے۔ جاؤ اس کا دین اور ہے اس کا مذہب اور ہے۔ پھر بات کیا ہے؟