کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 265
کی بات بھی سن لو ؎ شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ ہم روز روز کے جھگڑوں کا قضیہ پاک کر لیں؟ کیا یہ مشکل بات ہے کہ ہم اپنے مسائل کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے طے کر لیں؟ ہم دنیا میں دیکھتے ہیں لوگ دنیا کے معاملات میں لڑتے جھگڑتے ہیں اور پھر جب جھگڑا طول پکڑتا ہے تو بستی کے چوہدری اور سیانے کے پاس جاتے ہیں اس کے سامنے اپنا کیس رکھتے ہیں۔ وہ سیانا اگر زیادہ سیانا ہو گا تو وہ مسئلے کو سننے سے پہلے کہتا ہے تم ایک کاغذ پہ دستخط کر دو کہ مجھ کو بڑا سمجھ کے جو میں کہوں گا اسے مان لو گے۔ جو اچھے لوگ ہوتے ہیں جھگڑوں کو مٹانے والے وہ کہتے ہیں ہم تجھ کو بڑا مان کے ہی آئے ہیں۔ اگر بڑا نہ مانتے تو تیرے پاس نہ آتے۔ دستخط کی بات ہے دستخط کرنے کے لئے بھی تیار ہیں۔ دستخط کروا لو جو تو کہے گا ہمیں منظور ہے۔ پھر وہ جو فیصلہ کرتا ہے کوئی اس سے انحراف کی جرات اور جسارت نہیں کرتا۔ یارو !ہم سب مل کر سوچیں کہ دین کے مسئلے میں بھی کوئی بڑا ایسا ہے کہ جس کے پاس جا کے ہم اپنے جھگڑے کو چکا سکتے ہیں کہ نہیں؟ اگر ہم کبھی غور کی بات سنیں اور سوچیں تو ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ دنیا کے جھگڑوں میں تو لوگ کسی کو بڑا جا کے مانتے ہیں اور مسلمان کے گھر پیدا ہونے والا بچہ اپنی پیدائش ہی کے دن یہ سن لیتا ہے کہ اشہد ان محمد رسول اللّٰه میں دنیا میں آنکھ کھول رہا ہوں تو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا مان کے کھول رہا ہوں۔ اس کے تو دستخط ہو چکے ہیں۔ اس نے تو بڑا مان لیا ہے۔ اوروں کو تو اپنے جھگڑوں کے چکانے کے لئے پہلے کسی مشترکہ آدمی کے ڈھونڈنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایسا بندہ ڈھونڈھو جس پر دونوں فریقوں کا اعتماد ہو اور یارو تمہارے پاس تو ایسی شخصیت موجود ہے کہ جو اس پہ عدم اعتماد کرے وہ اس کی امت میں شامل نہیں رہتا۔ تمہیں تو ڈھونڈھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمہارے پاس تو وہ شخصیت مبارکہ مقدسہ محترمہ وہ قدسی صفات شخصیت موجود