کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 263
اختلافات کا حل خطبہ مسنونہ کے بعد: اَعُوْذُ بِاللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ. بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ. وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْکُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ. (سور ۃآل عمران :۱۰۳) حضرات !اگر آج کا یہ جلسہ میرے بھائی اور دوست‘میرے مخلص اور باوفا ساتھی مولانا حبیب الرحمن یزدانی کی بستی میں اور ان کی طرف سے منعقد نہ کیا گیا ہوتا تو میں یقینا حاضری سے بالکل انکار کر دیتا۔ اس لئے کہ کئی دن سے میں کافی بیمار ہوں[1] اور پھر ایک لمبا سفر کر کے آیا ہوں اور آتے ہی جلسے اور اجتماعات اور پھر ملک میں آتے ہی اس قسم کی خبریں جن کو سن کر کوئی بھی مسلمان پریشان ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ طبیعت پر ان کا اثر‘ راتوں کا جگرتا لیکن اس کے باوجود جب مولانا یزدانی صاحب ایسا دوست کہے تو پھر انکار ممکن نہیں ہوتا۔ میں اپنے رب سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ رب العزت ایسے لوگوں کی ہمتوں میں برکت
[1] یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ حضرت علامہ شہید کی جب طبیعت زیادہ خراب ہوتی اور اس کا اظہار وہ کبھی کبھار اپنے خطاب کے شروع میں کر دیتے تھے تو ان کی وہ تقریر خطابت کا شاہکار ہوتی تھی ۔ جیسا کہ یہ تقریر ہے ۔ اس کے علاوہ اسی مجموعے میں شامل خطاب بعنوان ’’ محمد بن عبد اللہ سے محمد رسول تک ‘‘ اور ’’ واقعہ کربلا پس منظر ‘‘ بھی آپ نے ایسی کیفیت میں کئے جب آپ کی طبیعت کافی خراب تھی ۔ لیکن مقامات اور موضوعات کی اہمیت کے پیش نظر اجتماع میں آپ کی شرکت ناگزیر تھی ۔