کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 261
نمازیں بھی پڑھیں ان کے جھنڈے کے نیچے جہاد بھی کیا اور ان کے دور اقتدار میں ان کے قائمقام بھی بنے۔ ایک حوالہ اور سن لو۔ آخری حوالہ ذرا کان کھول کے سنو۔ کہتے ہیں جناب اگر صدیق و فاروق و عثمان نہ چھینتے تو یزید کو بھی چھیننے کی جرات نہ ہوتی۔ ہم نے کہا ایک منٹ کے لئے مان ہی لیتے ہیں کہ صدیق و فاروق و عثمان نے چھین لی تھی‘ مان لیتے ہیں‘ او پھر تو علی کے قبضے میں آگئی تھی۔ سن ۳۵ ہجری میں پھر حضرت علی کے حصے میں آئی۔ جب گھر میں آگئی پھر اٹھا کے معاویہ کو کیوں دے دی تھی؟ ایک بات اور دوسری بات سن لو اگر انہوں نے خلافت چھینی ہوتی تمہارے چھ شیعہ مورخوں نے لکھا ہے مسعودی نے مروج الذھب میں یعقوبی نے تاریخ میں اربلی نے کشف الغمہ میں انہوں نے لکھا کہ حضرت عمر نے اپنے دور خلافت میں چار مرتبہ حضرت علی کو اپنا قائم مقام سربراہ بنایا تھا۔ خود سفر میں گئے قائم مقام صدر حضرت علی کو بنا کے گئے اگر حضرت علی کی غصب ہوئی ہوتی تو پھر ۔۔۔ ضیاء الحق کو کہو کہ ہمیں ایک دن قائم مقام بنا کے دیکھے۔ صرف ایک دن اگر دوبارہ قریب آگیا تو ہمارا نام بدل دینا۔ اگر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سمجھتے کہ صدیق و فاروق نے میری خلافت چھینی ہے تو جب مدینے کے قائم مقام صدر حکمران سربراہ بنے تو اس وقت ان کو واپس نہیں دینا چاہئے تھی ۔ لیکن کیا ہوا ؟ عمر قائم مقام بنا کر جانے لگے گھوڑے کی لگام تھام لی۔ کہا عمر مت جاؤ اگر تم پہ افتاد آگئی تو مومنوں کی امت باقی نہیں رہے گی۔ انک کالقطب للرحی اے عمر! تو چکی کے لئے اس کے کیل کی طرح اور تسبیح کے دانوں کے لئے ان کے امام کی طرح ہے۔ اگر امام موجود نہ ہو تو تسبیح کے دانے موجود نہیں ہوتے۔ اگر علی ان کی خلافت کو درست نہ مانتے تو پھر حضرت علی کو ان کی اتنی خیر خواہی کی ضرورت نہ تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ علی بھی سچا‘ حسن بھی سچا‘ حسین بھی سچا‘ صدیق بھی سچا‘ فاروق بھی سچا‘ ذوالنورین بھی سچا رضوان اللہ علیہم