کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 259
جلاء العیون کے اندر حیا القلوب کے اندر منتہی الامال کے اندر تمہاری ساری فقہ کی کتابوں میں یہ کیوں لکھا ہوا ہے کہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ صدیق اکبر کی خلافت میں چیف جسٹس مقرر کئے گئے اور آپ قاضی القضا کی حیثیت سے جب تک ابو بکر زندہ رہے ملک میں قضا کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ بتلاؤ اگر علی کا حق چھینا گیا تھا تو حق جس نے چھینا تھا اس کا عہدہ علی نے قبول کیوں کیا؟ آج ہم جیسے فقیر لوگ ہم جیسے غریب لوگ ناتواں کمزور لوگ آج بات سنو کبھی میں نے تقریر میں اپنی بات نہیں کہی ہے لیکن مسئلے کو سمجھانے کے لئے کہتا ہوں۔ اخباروں میں پڑھا سی آئی ڈی والے لکھ رہے ہیں ہماری جائیداد ضبط کی گئی۔ جس کوٹھی میں میں رہتا ہوں اس کو ضبط کیا گیا۔ اس امارت المومنین کے دور میں اس خلیفتہ المسلمین کے دور میں میری جائیداد ضبط کی گئی۔ جرم کیا تھا؟ جرم یہ تھا کہ میں اس جابرانہ غاصبانہ اور آمرانہ حکومت کو اسلامی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ عہدوں کی پیش کش ہوئی۔ اگر اندھے رویت ہلال کمیٹی کے ممبر اور چیئرمین بن سکتے ہیں ہم کو کونسی بات نہیں مل سکتی تھی؟ ہم نے کہا سن لو جائیداد ضبط کر لو دل ضبط کر لو زبان ضبط کر لو۔ ہر چیز گوارہ ہے مگر جسے ناحق سمجھتے ہیں اسے حق کہنا گوارہ نہیں کیا۔آج ہم جیسے فقیر اور ناتواں لوگ مارشل لاء کی حکومت کا مقابلہ کرتے ہوئے جائیدادیں ضبط کروانا گوارہ کر سکتے ہیں ان کے عہدوں کو قبول کرنا گوارہ نہیں کر سکتے تو حضرت علی ان کے متعلق تم یہ سمجھتے ہو غاصب کا عہدہ قبول کر لیا؟ آج یہ اصغر خاں یہ نصر اللہ خاں یہ میاں طفیل یہ دوسرے تیسرے کیا انہیں وزارتیں نہیں مل سکتی تھیں ؟ آج ہر ایرے غیرے کو وزارت کی پیش کش ہوتی ہے۔ کیا حاجی یوسف اللہ کو نہیں مل سکتی تھی جس نے ناطقہ بند کیا ہوا ہے؟ آج کے یہ سب لوگ حضرت علی ضی اللہ عنہ کے جوتے کی خاک کا مقابلہ بھی نہیں کرتے۔ یہ ہمارا ایمان ہے۔ یہ لوگ مارشل لاء کے کڑے دور میں چار چار پانچ پانچ سال جیلوں میں رہنا گوارہ کر لیتے ہیں مگر جن سے اختلاف ہے۔ ان کی حکومت میں شرکت گوارہ نہیں کرتے۔ صدیق جیسے رحیم و کریم شفیق و مہربان اور درد مند