کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 255
کہ پروانہ جو شمع پہ جلتا ہے یہ پروانے کا شمع کا قصور نہیں۔ کس کا ہے ؟ شہد کی مکھی کا۔ شہد کی مکھی کا کیا تعلق ہے بھلے مانس ؟ کہنے لگا شہد کی مکھی باغ میں گئی وہاں پھول لگے اس نے ان کا رس چوسا اس رس کو چوس کے شہد کا چھاتہ بنایا وہاں شہد سجایا شہد کے چھاتے سے موم بنا موم سے موم بتی بنی موم بتی جلی اور اوپر سے پروانہ آیا۔ اس لئے قصور موم بتی کا نہیں شہد کی مکھی کا ہے۔ یہی بات ہو گئی ناں۔ کہنے لگے نہ خلافت ابو بکر و عمر و عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین علی سے چھینتے اور نہ ہی یزید حسین سے چھینتا اور نہ ہی یہ واقعہ کربلا ہوتا۔ اس لئے معلوم ہوتا ہے قصور ان کا ہے۔ ہم نے کہا اگر صدیق و فاروق نے علی کی خلافت چھینی تھی تو اس نے خروج کیوں نہ کیا ؟ یہی ہے ناں بات وگرنہ صدیق و فاروق کا تذکرہ کیوں ؟ مسئلہ تو خلافت کا ہے اور مسئلہ ویسے حل نہیں ہو سکتا تو اذانوں میں کہنے لگے علی ولی اللہ وصی رسول اللہ خلیفتہ بلا فصل۔ کسی نے کہا کہ تیرے شریک کا چہرہ سرخ ہے۔ کہنے لگا کوئی بات نہیں میں تھپڑ مار مار کے سرخ کر لوں گا ۔ بن نہیں سکا۔ یہ اذان سے بنا رہا ہے مولوی۔ سمجھتا ہے میرے اذان دینے سے خلیفہ بن جائے گا۔ علی ولی اللّٰه وصی رسول اللّٰه خلیفتہ بلا فصل یعنی رسول کا بلا فصل خلیفہ علی ہے۔ بھئی تیری اذان سے تو نہیں بن جائیں گے۔ تیری اذان سے کیا فائدہ؟ کہتے ہیں انہوں نے چھینی۔ ہم نے کہا نقل کی بات بعد میں کریں گے پہلے عقل کی بات سن لو۔ اگر انہوں نے چھینی تھی جس طرح یزید نے چھینی اور حسین نے یزید کے خلاف خروج کیا تو باپ نے ابو بکر کے خلاف خروج کیوں نہیں کیا؟ تمہارے بقول جب حسین کی خلافت چھینی گئی تو ساٹھ سال کے بوڑھے تھے اور کوئی خیبر بھی پہلے فتح نہیں کیا تھا کسی بدر میں جوہر بھی نہیں دکھائے تھے کسی مرحب کو قتل بھی نہیں کیا تھا ذوالفقار بھی ان کے پاس موجود نہیں تھی اور قلعہ خیبر کا دو سو من دروازہ بھی اپنے ہاتھ سے نہیں اکھاڑا تھا لیکن بڑھاپے پر خلافت چھیننے کے باوجود خاموشی اختیار نہیں کی۔ او تمہارے بقول جب علی سے چھینی گئی تو اس وقت وہ تیس سال کا جوان رعنا تھا۔ اگر