کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 254
انہی کو بیمار کربلا کہا جاتا ہے۔ محمل میں‘ کجاوے پہ‘ اونٹ پر ان کو لادا گیا اور چلے۔ اب ذرا بات کو سنو۔ کوفہ کے بازاروں سے گزرے۔ کتاب تیری ‘تاریخ یعقوبی شیعہ کی۔ علی زین العابدین کوفہ کے بازاروں سے گزرے۔ دیکھا لوگ رو رہے ہیں عورتیں بھی رو رہی ہیں اور مرد بھی رو رہے ہیں۔ اپنے سر کو اٹھایا بہن نے آسرا دیا کہا بہن یہ کون لوگ ہیں ؟ کہا یہ تیرے باپ کے شیعہ کوفے کے شیعہ ہیں۔ کہا بہن یہ کس کو روتے ہیں ؟ بہن نے جواب نہیں دیا پاس پڑوس چلنے والوں نے جواب دیا۔ زین العابدین یہ تیرے باپ کو روتے ہیں۔ شیعہ کتاب کے تاریخی الفاظ ہیں۔ کہا من قتلہ اذ اً (تاریخ یعقوبی ج۱ص۲۳۵) اگر کوفی میرے باپ کا ماتم کرتے ہیں تو مجھے یہ تو بتلا دو میرے باپ کا قاتل کون ہے؟ خود قتل کیا‘ خود رو رہے ہیں‘ خود مارا‘ خود شہید کیا‘ خود ماتم؟ من قتلہ اذ اً اگر یہ میرے باپ کے قاتل نہیں تو میرے باپ کے قاتل کہاں سے آئے تھے؟ انہوں نے دیکھا کہ ان پر وہ تہمت لگی جو قیامت تک نہیں دھوئی جا سکتی۔ خود بلایا خود مروایا۔ انہوں نے سوچا اب کیا کیا جائے۔ اس تہمت کو دور کیسے کیا جائے۔ کہنے لگے ہم نے نہیں مروایا۔ کس نے مروایا ہے ؟ کہنے لگے ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے مروایا ہے ہم نے نہیں مروایا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے مروایا ہے ہم نے نہیں مروایا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے مروایا ہے۔ پوچھنے والے نے پوچھا۔ احمقو کربلا کے واقعے سے تیس چالیس پچاس برس پہلے یہ لوگ تو رخصت ہو چکے تھے۔ انہوں نے کیسے مروایا؟ عقل کی بات کرو۔ کہنے لگے وہ تو ٹھیک ہے لیکن ہاتھ انہی کا ہے۔ ہم نے کہا ان کا ہاتھ کیسے؟ کہنے لگے نہ یہ اس کے باپ سے خلافت چھینتے نہ یزید اس سے چھینتا۔ کبھی کبھی میں کہا کرتا ہوں کسی شاعر نے کہا تھا مگس کو باغ میں جانے نہ دیجئیو ناحق خون پروانے کا ہو گا