کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 252
لگ گئیں۔ اور لاشیں گئی کہاں ؟ کہنے لگے فرشتے اٹھا کے لے گئے۔ آئے کہاں سے گئے کہاں سے ؟ کوئی خدا کا خوف کرو۔ حسین کی شہادت اس لئے شہادت ہے کہ حسین لڑنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ حسین کو مجبور کیا گیا۔ حسین نے تین منصفانہ شرائط پیش کیں۔ واپس پلٹ جاتا ہوں‘ بارڈر پہ چلا جاتا ہوں‘ یا یزید کے پاس لے چلو۔ اس سے گفتگو ہو گی جو فیصلہ ہو گا مجھے منظور ہو گا۔ کہتے ہیں ناں کہ بادشاہ سے زیادہ بادشاہ پرست بیڑہ غرق کرتے ہیں۔ضیاء الحق اتنے بیان نہیں دیتا جتنے بیان چمچے دیتے ہیں۔ کہتے ہیں اگر ضیاء الحق چلا گیا تو اسلام کا پایا ( ستون ) ٹوٹ جائے گا۔ ہم نے کہا ضیاء الحق نہ ہو گیا چارپائی کا سیرو ہو گیا۔ یہ اگر نہیں رہا تو پایا ٹوٹ جائے گا۔ کوئی خدا کا خوف کرو۔ اس کے آنے جانے سے کیا ہوتا ہے لوگ آتے بھی رہتے ہیں اور جاتے بھی رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ پیراں نمی پراند مریداں ہمی پراند کہ پیر تو بیچارہ بیٹھنا چاہتا ہے مرید بیٹھنے نہیں دیتے۔ اڑ اڑ کے کہہ رہے ہیں امیر المومنین علیہ الصلو السلام۔ اب جناب حال یہ ہے کہ وہ زیادہ بادشاہ پرست تھے۔ انہوں نے کہا نہیں ہم تو بیعت کر کے جانے دیں گے۔ لڑائی ہوئی گیارہ بجے کے قریب جنگ ہوئی۔ ڈیڑھ بجے کے قریب جنگ ختم ہو گئی اور یہ بھی اس لئے ہوئی کہ عربوں کا رواج یہ تھا کہ پہلے ایک ایک کر کے لڑتے تھے۔ ایک ایک کر کے حسین کے سارے ساتھی شہید ہوئے۔ سب مردوں میں سے باقی ایک بچا جس کا نام زین العابدین تھا۔ اب ذرا یہاں رک کے ایک مسئلہ اور سن لو۔ ذاکر کربلا کے شہیدوں کا نام لیتا ہے۔ کہتے ہیں فلاں شہید ہوا فلاں شہید ہوا۔ ہوئے۔ کون ؟ کہتا ہے عون شہید ہوئے‘ محمد شہید ہوئے‘ عرفہ ابن عوسجہ شہید ہوئے‘ حرتمیمی مارا گیا اور میں نے پوچھا۔ تم بھی یاد کر لو مسئلہ۔ تم بھی کبھی پوچھنا ذاکر کو۔ میں نے کہا ساروں کے بیٹوں