کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 251
مسلم بن عقیل اس طرح بے یار و مدد گار بے کسی اور بے بسی کی موت مارے گئے ہیں۔ حسین نے پلٹنے کا ارادہ کیا۔ جاؤ کوئی ماں کا لال دکھاؤ تو سہی جو اس کا انکار کرے۔ حسین نے پلٹنے کا ارادہ کیا مسلم ابن عقیل کے بھائی بیٹھ گئے۔ کہنے لگے حسین ہمارا بھائی مرا ہے ہم پلٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ حضرت حسین نے دیکھا یہ پلٹنے پر آمادہ نہیں۔ فرمایا اگر تم پلٹنے پر تیار نہیں تو میں بھی نہیں پلٹتا قافلہ چلا۔ کوفے میں اب جتنی تلواریں ہیں وہ عبید اللہ ابن زیاد کے ساتھ ہیں۔ وہی لوگ جو کل تک حسین حسین کا نعرہ بلند کر رہے تھے آج یزید یزید کے نعرے بلند کر رہے ہیں اور ابھی کئی منزل دور کربلا میں نہیں پہنچے دس تاریخ کی صبح دس بجے کہ ادھر سے عبید اللہ بن زیاد اپنا لشکر لے کے آپہنچا۔ حسین نے نظر اٹھائی دیکھا لشکر میں کوئی بھی شامی نہیں سارے کوفہ کے لوگ ہیں۔ کہا کیوں آئے ہو ؟ حسین تجھ سے لڑنے کے لئے آئے ہیں۔ حسین نے خطوں کی بھری ہوئی بوری اٹھائی ایک ایک کا نام لیا۔ تم میں تمہارا فلاں سردار موجود ہے ؟ اس نے کہا موجود ہے۔ فرمایا یہ تم نے ہی خط لکھ کے مجھ کو بلایا تھا ؟ کہا بلایا تھا‘ غلطی ہو گئی ۔ کہا اگر غلطی ہو گئی تھی تو اب کم از کم گھر میں بیٹھے رہتے میرے خلاف لڑنے کے لئے تو نہ آتے۔ ایک ایک کا نام لیا پھر بات بڑھی‘ فرمایا اپنے سردار کو بلاؤ۔ اس طرف سے کمانڈر آگے بڑھا کیا بات ہے ؟ کہا میری تین شرطیں ہیں۔ مجھ کو واپس پلٹ جانے دو۔ میں مکے واپس چلا جاتا ہوں۔ مجھ کو چھوڑ دو۔ کہا یہ ممکن نہیں۔ کہا پھر مجھے بارڈر پہ بھیج دو۔ کافروں کے خلاف لڑتا ہوا شہید ہو جاؤں گا۔ میں کسی حکومت ‘کسی خلافت سے تعرض نہیں کرتا‘ بارڈر پہ چلا جاتا ہوں۔ کہا یہ بھی منظور نہیں ہے۔ کہا مجھ کو یزید کے پاس لے چلو جو وہ میرے ساتھ فیصلہ کرے گا مجھے منظور ہو گا۔ اس نے کہا ہم کو یہ بھی منظور نہیں۔ تین مطالبے‘ کوفیوں نے تینوں مسترد کئے اور اسی لئے ہم حسین کی شہادت کو شہادت سمجھتے ہیں۔ اس لئے کہ حسین لڑنے کے لئے تیار نہیں تھے۔